Daily Roshni News

حسرتوں کی سُرخی تحریر ۔۔۔عثمان طاہر… بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور ستمبر 2019

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ حسرتوں کی سرخی۔۔۔ تحریر۔۔۔عثمان طاہر) عورتیں گرد و پیش میں حالات کی مناسبت سے لغت ترتیب دیتی ہیں ۔ ہا ئیں سبب جزئیات کو پیش کرنے کے لئے ان کے پاس الفاظ کی کمی نہیں ہوتی کیوں کہ ان کی زبان میں وضاحت زیادہ ہے اسی لئے عورتوں کی تحریروں میں شائستگی ہوتی ہے۔
ایک دن مرزا رفیع سودا کے ہاں میر سوز تشریف لائے۔ باتوں کے دوران مرزا سودا نے شیخ علی حزیں کی غزل کا مطلع پڑھا،
می گرفتیم بجاناں سر را ہے گا ہے
او ہم از لطف نہاں داشت نگا ہے گا ہے
ترجمہ کبھی محبوب سے سر راہ ملاقات ہو جاتی تھی وہ بھی لطف باطن سے ہم پر نگاہ ڈال لیتا تھا۔
جواب میں میرسوز نے اپنا مطلع پڑھا۔
نہیں نکھنے ہے مرے دل کی آیا ہے گا ہے
اے فلک بہرِ خدا رخصت آہے گا ہے
ترجمہ : میرے دل کا ارمان پورا نہیں ہوتا ۔ اے آسمان! اللہ کے واسطے ایک آہ بھرنے کی اجازت دے دو۔
مرزا سودا نے کہا، میر صاحب ! بچپن میں ہمارےہاں معنیا میں آتی تھیں، اس وقت یہ لفظ ( آپا ہے ) سنا تھا اور آج سنا ہے ۔ میر سوز جنس کر چپ ہو گئے۔
وہ مغنیا میں جو ” نکسے “اور ” آپا ہے جیسے الفاظ بولتی تھیں ، فارسی غزلوں کے بجائے ہندی اشعار سناتی تھیں ۔ یہ زبان ان دنوں بآسانی سمجھ میں آنے والی اور مقبول عام تھی۔
اردو بات چیت کی زبان بنی تو اس نے ادبی زبان اور بول چال کے فرق کو مٹایا۔ عوام و خواص دونوں ادبی زبان میں گفتگو کرتے تھے۔ اٹھارویں صدی میں بیش تر دہلوی شعرا کے کلام میں یہی اصول جھلکتا ہے۔ آگے چل کر جب مرزا مظہر جانجاناں ، حاتم ، سوداء ناسخ، شاہ نصیر اور ذوق نے اپنے مزاج کے مطابق زبان کی اصلاح کا کام کیا تو دہلی میں جس قدیم لب و لہجہ کی گونج سنائی دی، اس کا سہرا مردوں سے زیادہ خواتین کے سر ہے۔ جو خواتین زیادہ وقت گھر میں گزارتی ہیں، ان کا مختلف اقوام اور زبان کے لوگوں سے ملنا جلنا کم ہوتاہے اس لئے کہنا بجا ہے کہ ایسی خواتین زبان کے معاملہ میں قدامت پسند ہوتی تھیں۔ موجودہ دور میں نانی دادی اور ان کی تربیت میں رہنے والے بچوں کی زبان سنیں ، لہجہ خالص اور زبان میں ادب ہوتا ہے۔ پہلے کے وقتوں میں خواتین کا اپنی برادری سے باہر کے لوگوں اور قسم قسم کی بولی بولنے والوں سے مکالمہ نہ ہونے کے برابر تھا لہذا اس زمانہ میں خواتین کی زبان بگڑنے سے محفوظ رہتی تھی ۔
الفاظ کے انتخاب میں خواتین کی خصوصیت ہے کہ وہ مردوں کے مقابلہ میں شائستہ اور لطیف زبان استعمال کرتی ہیں۔ نیز بعض ایسی باتیں جن کا سر عام اظہار اچھا نہیں سمجھا جاتا ، انہیں واضح الفاظ میں کہنے کے بجائے اشاروں کنایوں میں بیان کرتی ہیں جس سے اخلاقی ماحول پروان چڑھتا ہے اور ادب برقرار رہتا ہے۔ خواتین گرد و پیش میں حالات کی مناسبت سے لغت ترتیب دیتی ہیں۔ بایں سبب جزئیات کو پیش کرنے کے لئے الفاظ کی کمی نہیں ہوتی کیوں کہ ان کی زبان میں وضاحت زیادہ ہے اس لئے خواتین کی تحریروں میں شائستگی ہوتی ہے۔
حضرات اتفاق کریں گے کہ خواتین لسانی اعتبار سے مردوں سے تیز ہوتی ہیں اور مقابل کو ہتھیاروں کے بغیر الفاظ کے وار سے مات دینے کی زبر دست صلاحیت رکھتی ہیں ۔ اور جناب !’ خاص مواقع پر ان کے لہجہ میں فصاحت و صراحت کے کیا کہنے ! ان کی بلاغت سے پتھر میں چنگاری پیدا ہو جاتی ہے۔ تجربہ کار حضرات تحریر میں مخفی مفہوم سے واقف ہیں ۔ البتہ اس میں شک نہیں کہ زبان میں تیزی ، ذہن کی تیزی کو ظاہر کرتی ہے اس لئے ہر لحاظ سے خواتین صلاحیت میں مردوں سے آگے ہیں۔ جس کام میں پیش قدمی کرتی ہیں ، توجہ اور سلیقہ سے انجام دیتی ہیں ۔ سیکھنے کا شوق رکھتی ہیں اور ذوق میں نزاکت مد نظر ہوتی ہے۔ خواتین کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ باتونی ہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ اظہار بیاں کا شوق انہیں گفتگو پر مائل رکھتا ہے ۔ دوسری وجہ مردوں کے صبر کا امتحان لینا اور انہیں اچھا سامع بنانا مقصود ہے۔
عموماً دیکھا گیا ہے کہ گاؤں دیہات جہاں خواتین گھر کے ساتھ باہر کے امور بھی انجام دیتی ہیں اور حضرات کام نہیں کرتے ، سارا دن محفلیں جھاتے اور پلنگ توڑتے ہیں۔ یہاں تک کہ باتوں میں خواتین – کو مات دے دیتے ہیں۔ لہذا باتونی ہونے کی ایک وجہ فارغ بیٹھنا ہے ۔ لیکن خواتین پر یہ قانون لاگو نہیں ہوتا۔ دن بھر کام کاج اور گھر کی مشکل ذمہ داری کے با وجود بلاغت کے فن میں ان کا ثانی نہیں۔
مزاح ایک طرف اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ زبان کے سلسلہ میں مردوں سے زیادہ خواتین ماہر ہیں ۔ انہیں الفاظ ٹو لنے اور تولنے میں دیر نہیں لگتی ۔

مشکل سے مشکل بات کو آسان الفاظ میں بیان کر دیتی ہیں۔ اور یہ خوبی ہے۔
ہر زبان کی لغت میں ایسے الفاظ ہیں جو خواتین کی بول چال کے لئے مخصوص ہیں اور مردوں کی گفتگو میں یہ الفاظ کم نظر آتے ہیں۔ زبان کے حوالہ سے دہلی اور لکھنو کی خواتین کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ بیش تر محاورے اور اصطلاحات کی ایجادان سے منسوب کی جاتی ہے۔ اردو نثر میں خواتین کی بول چال باغ و بہار اور دیگر داستانوں میں سمٹ آئی ہے۔ ایک اور مثال لکھنو کے آخری نواب واجد علی شاہ کی بیگمات کے خطوط ہیں جو انہوں نے شوہر کو مٹیا برج جانے کے بعد لکھے۔ مٹیا برج میں اسیری کے دوران نواب واجد علی شاہ نے بیگمات کو متعد د خطوط لکھے اور بیگمات نے بھی غم و پاس اور فراق کا اظہار سلیس اور شستہ زبان میں کیا۔ جو عکاسی کرتا ہے کہ اس دور میں عام بول چال کی زبان ادبی تھی ۔ واجد علی شاہ کی پڑھی لکھی بیگمات کے علاوہ وہ بیگمات جو پڑھی لکھی نہیں تھیں، باقاعدگی سے منشیوں، ادیبوں اور شاعروں کے ذریعہ خطوط لکھواتی تھیں۔ اس بارے میں مصنف خواجہ احمد فاروقی لکھتے ہیں، عورتیں زبان کی سب سے بڑی محافظ ہوتی ہیں ۔ اور اردو کی ٹکسالی زبان کا تو دارو مدار صرف بیگمات پر ہے ۔ واجد علی شاہ کی بیگمات کو اس معاملہ میں خصوصیت حاصل ہے۔
یہ خطوط مفلسی و پریشانی میں لکھے گئے تھے لیکن ان میں روزمرہ کی چاشنی ، الفاظ کی ترتیب ، محاورات کا استعمال ، سادگی غرض زبان کی تمام خوبیاں ملتی ہیں ۔ جب واجد علی شاہ کو وطن سے در بدر کیا گیا تو اس وقت کی روداد نواب خاص محل کے ایک خط سے ہوتی ہے جو انہوں نے نواب کی دوسری بیگم شیدا کولکھا۔ بہن شیدا بیگم ! میراں جی کی 27 تاریخ 1217ء پنج شنبہ کا دن عمر بھر نہ بھولے گا جب کہ سلطان عالم کو جنرل اوٹرم صاحب نے باپ دادا کی سلطنت چھوڑنے اور حکومت سے دست بردار ہونے کا حکم دیا اور لکھنو سے ہم جدا ہوئے جیسے بلبل گلزار سے چھوٹی ، یوسف مصر سے نکلے، بوئے گل چمن سے جدا ہوئی۔ پیا جان عالم کو سکوت اور تمام عملہ کا حسرت بھری نگاہ سے دیکھ کر بے کسی کے آنسو بہانا۔ کمال ادب سے رومال میں غم کے موتیوں کو سمونا۔ اعزا کو ہچکیاں لگی ہوئی تھیں ۔ ہم آخرش محلات میں ماتم بپا کرتے ہوئے سلطان عالم کے ہم راہ روانہ ہوئے ۔ اس وقت جان عالم کا یہ کہنا، تم پر دس برس تک میں نے سلطنت کی، اس عرصہ میں جو کچھ صدمہ اور رنج میری ذات سے تم کو پہنچا ہو اس کو بخوشی معاف کر دو۔ اس وقت میں معزول ہوں اور تم سے چھٹتا ہوں ۔ خدا جانے زندگی میں پھر ملوں یا نہ ملوں۔“ قارئین ! خط کیا ہے، غم و یاس کی تصویر ہے جس میں حسرتوں کی سرخی ملی ہوئی ہے۔ اس دور کی نثر پر بھی شاعری کا گمان ہوتا ہے۔ شیدا بیگم کا خط پڑھئے جو انہوں نے نواب واجد علی شاہ کو لکھا،
مجمع جود و کرم ، صاحب سیف و علم ، حضرت سلطان عالم زید اللہ عشقہ ۔ بڑا ہے یہ ظلم و ستم کہ تم نے محبت نامہ نہ کیا رقم ، سچ کہوں خدا کی قسم، کیوں ہو گئے ہم سے برہم ، ہم کو اس کا بہت ہے غم کس نے الفت کی ہے کم ، اپنا تو فرقت سے نکلتا ہے دم کہ خیریت سے لائے تم کو رب اکرم، پھر ہم تم ہوں با ہم ، اور نور چشم نگیں آرا بیگم تسلیم کرتی ہیں ، ہو کر خم ۔“
ان خطوط میں اوراق پارینہ کی جھلکیاں ہیں۔ طرز بیان میں سادگی اور صراحت پر نظر ڈالئے تو اشاروں کنایوں میں جذبات کا اظہار ہے۔

آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے عہد میں اردو زبان پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک مصنف نے لکھا ہے، قلعہ معلی کی تہذیب کا ایک اہم جز وہ زبان تھی جس میں شاہ عالم ثانی اور ان کے بعد ظفر نے بھر پور شاعری کی ۔ اس زبان کی گونج قلعہ اور بازار سے گزرتی ہوئی کاملی دروازہ کے اس تنگ و تاریک مکان تک سنائی دیتی تھی جہاں ذوق کا مسکن تھا اور پھر یہ گونج سنے والوں کو اپنی طرف کھینچتی تھی ۔ اس گونج میں ذوق بھی کھنچے چلے گئے اور پھر دتی کا محاورہ اور روزمرہ جس طرح ذوق کی شاعری میں رچ بس گیا، اس کی دوسری اور نسبتاً زیادہ خوب صورت مثال داغ کے یہاں ملتی ہے۔”
زبان کے حسن کا دارو مدار لہجہ میں نرمی اور روانی ، آسان الفاظ اور گہرے معانی پر ہے ۔ اس معیار میں کمی زبان کے زوال اور عدم مقبولیت کا سبب بنتی ہے۔ بیگمات نے اپنے محاوراتی اسلوب میں تشبیہ اور تمثیل مصوری اور اشاریت کے جو ہر سمو لئے تھے۔ اردوئے معلی سے محبت کرنے والا ان کی صدائے بازگشت سن کر بے قرار ہو جاتا ہے۔
ضرب الامثال اور محاورہ بھی زبان کے لئے خزانہ ہے۔ مثلا ، جی جائے ۔ گھی نہ جائے ۔ ایک گال ہنسنا۔ ایک گال رونا۔ جھٹ پٹ کی گھانی۔ آدھا تیل آدھا پانی۔ آئی تو نوش نہیں تو فراموش، وغیرہ۔ سنا ہے کوئی جاٹ سر پر چار پائی لئے کہیں جارہا تھا۔ ایک تیلی نے دیکھ لیا اور جھٹ پھبتی کسی۔ جاٹ رے جاٹ تیرے سر پہ کھاٹ ۔ جاٹ چپ رہا مگر بدلا لینے کا ارادہ کر لیا۔ ایک دن دیکھا کہ تیلی اپنا کولہو لئے جاتا ہے۔ جاٹ نے جوابا کہا ، تیلی رے تیلی ترے سر پہ کو لہو۔ تیلی ہنسا اور کہنے لگا، بچی نہیں ۔ جاٹ نے جواب دیا بچے نہ بچے تو بوجھوں تو مرے گا۔
بچہ زبان ماں سے سیکھتا ہے ۔ جب سے خواتین کی نوکری کا رجحان بڑھا ہے، زبان بھی متاثر ہوئی ہے۔ کہتے ہیں کہ جہاں خواتین ہوتی ہیں مرد الفاظ کے انتخاب میں احتیاط برتتے ہیں۔
میرا اپنا تجربہ ہے کہ جس آفس میں کام کرتا ہوں ، پہلے وہاں سارے مرد کام کرتے تھے۔ پہلی بار خاتون کو رکھا گیا تو سب کو تاکید کی گئی کہ بات چیت میں احتیاط کریں، اب آفس میں ایک خاتون بھی ہیں۔ سب نے احتیاط اور ادب کو ملحوظ خاطر رکھا اور چند روز میں آفس کا ماحول بدل گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خاتون نے خود کو مردوں کے رنگ میں نہیں ڈھالا بلکہ خاموشی سے سب کا مزاج بدل دیا۔ اس کے برعکس جتنا خواتین کا گھر سے باہر کام کرنے کا تناسب بڑھ رہا ہے، زبان بھی تبدیل ہو رہی ہے۔ اخبار کے دفتر میں ایک خاتون کو نائٹ شفٹ میں ملازمت پر رکھا گیا تا کہ ماحول میں نظم ونسق پیدا ہو اور ملازمین کی زبان بہتر ہو۔ کچھ عرصہ بعد سب نے دیکھا کہ خاتون نے مردوں کی زبان کا اثر لے لیا۔ وجہ یہ ہے کہ ماحول میں مردوں نے خاتون کی موجودگی کا لحاظ نہیں کیا اور خاتون نے بھی ان کے ساتھ کام کرتے ہوئے زبان کی اہمیت کو نہیں سمجھا۔
ہر دور میں زبان پر عروج و زوال آتا ہے۔ خالص زبان گھٹتے گھٹتے عامیانہ ہو جاتی ہے۔ غالب اور میر کی شاعری پڑھیں ، اپنے زمانہ میں یہ اردو کا معیار تھا، اور آج کی زبان دیکھ لیں ۔ فرق واضح ہے کہ کس حد تک الفاظ کا انتخاب اور معیار بدل گیا ہے۔ تہذیب کی حفاظت بنیادی طور پر عورت کے ہاتھ میں ہے کیوں کہ وہ مردوں کی تربیت کرتی ہے۔ زبان کی درستی کا حل یہ نہیں کہ عورتیں گھر پر بیٹھ جائیں لیکن جہاں رہیں، اپنے کردار کے ذریعے تربیت کا عمل ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ اب نہ وہ اردو رہی اور نہ عوام و خواص میں بولی جانے والی اس وقت کی زبان ۔ بدلتے زمانہ اور جدید مواصلاتی نظام نے ماضی کی ریتی روایات بدل دی ہیں ۔ عورت مرد سب اردو بول رہے ہیں لیکن نہیں بول رہے ۔ جولوگ زبان کے حسن کا رونا روتے تھے، وہ قصہ پارینہ ہوئے۔ جواب موجود ہیں وہ کل نہیں ہوں گے۔ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا نام اللہ کا !
بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور ستمبر2019

Loading