Daily Roshni News

ابھی مت جاؤ رک جاؤ۔۔۔قسط نمبر1۔۔۔تحریر۔۔۔۔عابد محمود

ابھی مت جاؤ رک جاؤ

تحریر۔۔۔۔عابد محمود

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز  انٹرنیشنل ۔۔۔ ابھی مت جاؤ رک جاؤ۔۔۔ تحریر۔۔۔۔عابد محمود)ہمارے پاس اپنے لئے دنیا مانگنے آتے ہو اور ماں کے لئے کہتے ہو کہ مجھ سے ان کی تکلیف دیکھی نہیں جاتی ، دعا کریں اللہ مشکل آسان کرے ۔ شرم نہیں آتی ! کسی ماں نے آج تک نہیں کہا کہ میرا بیٹا زندگی وموت کی کشمکش اور تکلیف میں ہے ، دعا کریں کہ اللہ اس کی تکلیف ختم کر کے اس کو اپنے پاس بلا لے۔ جاؤ جس کی تمہارے جیسی اولا د ہو، اللہ اس ماں کی مشکل آسان کرے!

پیاس کی شدت سے حلق میں کانٹے چبھ رہے تھے۔زیروواٹ کے بلب سے کمرے میں ہلکی نیلی روشنی پھیلی ہوئی تھی ۔ سائیڈ ٹیبل پر پانی کا گلاس اور جنگ رکھا تھا۔ پوری قوت سے ساتھ والے کمرے میں بیٹے کو آواز دینے کی کوشش کی لیکن آواز خود اس کی سماعت تک نہیں پہنچی۔ بے بسی سے آنکھوں میں پانی بھر آیا۔ لاغر ہاتھوں سے سائیڈ ٹیبل کو کھٹکھٹانے کی کوشش کی ۔ دھیمی آواز پیدا ہوئی جو بمشکل اس کے کانوں تک پہنچ سکی ۔ حواس مجتمع کرتے ہوئے دوبارہ سائیڈ ٹیبل پر رکھا ہوا گلاس اٹھانے کی کوشش کی ۔ بڑھاپے میں دایاں جسم مفلوج ہونے کے ساتھ قوت گویائی بھی متاثر ہوئی تھی۔ بولنے کی کوشش کرتی تو منہ سے خوں خوں کی آوازیں نکلتیں۔ بیٹا سننے کی کوشش کرتا پھر اکتائے ہوئے لہجہ میں کہتا ،اماں پریت نہیں کیا کہہ رہی ہو!

آنکھوں کی پتلیاں بیٹے کو دیکھ کر حیرت سے پھیل جاتیں اور وہ سوچتی کہ عمیر چھوٹا تھا تو میں کچھ کہے بغیر اس کی بات سمجھ جاتی تھی ، پھر اسے ماں کی بات سمجھ میں کیوں نہیں آتی؟ ذہن میں ماضی کی رو چلنے لگتی ۔ عمیر پیدا ہوا تو ایک سال تک خود سے کروٹ نہیں لے سکتا تھا۔ مکھیوں سے بچانے کے لئے ہاتھ کے پنکھے سے ہوا دیتی تھی۔ ذہن ماضی میں کھو گیا ۔ سنبل سخت سردی میں رضائی میں بچہ کو ساتھ لٹائے ٹھٹھر رہی تھی ۔ جب سے عمیر پیدا ہوا تھا، زچگی سے ہونے والی کم زوری نے بے حال کر دیا تھا ۔ پہلے بھی سردیاں آتی تھیں لیکن محسوس نہیں ہوتی تھیں ۔ دل چاہا کہ گرم چائے ہے ۔ مگر رضائی چھوڑنے کی ہمت نہیں ہوئی ۔ عمیر نے رونا شروع کر دیا۔ وقت دیکھا تو رات کے گیارہ بج رہے تھے ۔ ماں جانتی ہے کہ بچہ کو بھوک کب لگتی ہے اور کب وہ بول و براز کرتا ہے۔ رونے کی آواز سےپہچان جاتی ہے کہ پیٹ یا کان میں درد ہے۔ سائیڈ ٹیبل سے فیڈر اٹھایا اور پانی گرم کرنے کے لئے فوراً بستر چھوڑ دیا۔ کپکپاتی ہوئی باورچی خانہ میں چولہے پر دیکھی رکھ کر پانی گرم کرنے لگی۔ دودھ فیڈر میں ڈالا ۔ عمیر کو گود میں لیا اور نیند بھری آنکھوں سے اسے دیکھا جو دودھ پیتے پیتے سو گیا تھا۔ بہت آہستگی سے جیسے ہی گود سے اتارا، اس نے پھر رونا شروع کر دیا۔ سنبل نے بوجھل پلکوں سے دوبارہ گود میں لیا ۔ گود میں آتے ہی وہ چپ ہو گیا اور سنبل بیٹھے بیٹھے ساری رات سوتی جاگتی رہی۔ بستر گیلا ہونے کا احساس ہوا۔ فورا گیلی جگہ سے بچہ کو اٹھایا، اپنی جگہ پر لٹایا۔ اس کےکپڑے بدلے اور خود گیلی جگہ پر لیٹ گئی۔ پیاس کی شدت ماضی سے حال میں لے آئی۔ اپنی حالت دیکھ کر بے بسی کا احساس بڑھ گیا۔ گلاس اس کی پہنچ سے آٹھ نو انچ دور تھا۔ اس تک ہاتھ پہنچانے کی کوشش میں سانس پھول گیا۔ جیسے ہی گلاس پر ہاتھ لگا، گلاس ٹیبل سے گر گیا۔ شیشہ گرنے کی آواز سے ساتھ والے کمرے کی لائٹ جلی اور بہو بڑبڑاتے ہوئے ہیں کمرے میں داخل ہوئی ۔

سنبل کی رنگت سانولی تھی اس لئے رشتہ کے لئے آنے والوں نے رنگ کو جواز بنا کر اسے مسترد کر دیا۔ یہ سید خطر ناک معاشرتی رویہ ہے جس نے بے شمارلڑکیوں کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچائی ہے اور احساس کم تری میں مبتلا جوکر رہا ہے۔

 بالآخر اللہ نے مشکل آسان کی اور جمیل کا رشتہ آیا۔ شادی کے وقت سنبل کی عمر 25 سال تھی ۔ خوش قسمتی تھی کہ شوہر اس کا ہم مزاج تھا۔ شادی کے ڈیڑھ سال بعد اللہ نے اولاد سے نوازا۔ عمیر دس ماہ کا تھا کہ جمیل کی سڑک حادثہ میں موت ہوگئی۔ شوہر کی موت کی خبر سنبل پر بجلی بن کر گری اور وہ کتنے دن اس بات کو قبول نہ کر سکی کہ وہ بیوہ ہے۔ جمیل کے جانے کے بعد سسرال والوں کے رویہ سے دل برداشتہ ہو کر ماں باپ کے گھر منتقل ہونا پڑا۔ جوانی میں ہیوگی کا روگ چیلنج بن جاتا ہے۔ بیوہ یا مطلقہ سے شادی ہمارے معاشرہ میں وہی کرتے ہیں جو خود تین یا چار بچوں کے باپ ہوتے ہیں۔ ماں باپ نے ہر ممکن کوشش کی کہ سنیل دوسری شادی کے لئے راضی ہو جائے۔ اصرار پر اس نے ہامی بھر لی لیکن جو رشتہ آیا ، باپ کی عمر کا تھا۔ وہ خود کو راضی نہ کر سکی۔

سانولی رنگت صرف ازدواجی رشتہ کے وقت خامی ہوتی ہے مگر جاب کے وقت باس ان چیزوں کو نہیں دیکھتا۔ اس بات کا احساس سنبل کو ملازمت کے وقت ہوا۔ ملازمت کے لئے درخواست دی ، جلد انٹرویو کے لئے بلالیا گیا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی باس نے ہرسے پیر تک عجیب نظروں سے دیکھا۔

 باس نے بتایا کہ ہمیں تجربہ کار بندہ کی ضرورت ہے، جو اکاؤنٹس میں مہارت رکھتا ہو اور فیکٹری میں کام کرنے کاکم سے کم پانچ سال کا تجربہ ہو۔ لیکن آپ کی معصومیت دیکھ کر میں آپ کو جاب پر رکھ سکتا ہوں ۔ یہ کہتے ہوئے ہاتھ سنیل کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ سنبل نے ہاتھ کھینچا اور تیزی سے آفس سے نکل گئی۔ گھر آ کر کتنی دیر ذلت کے احساس سے روتی رہی۔ بیٹے کوگود میں اٹھایا۔ جانتی تھی کہ اسے تلخ تجربات منتظرہیں اور یہ صرف ابتدا ہے۔ عمیر کے مستقبل کو دیکھتے ہوئے نئے عزم کے ساتھ سی وی کی مزید فوٹو کا پیاں کروا کر مختلف فیکٹریوں میں بھیجنے لگی۔ جذبات و احساسات کھل کر زندگی بیٹے کے لئے وقف کر دی۔ صبح گھر سے نکلتی اور شام چھ بجے گھر واپس آتی ۔ نانی عمیر کا دھیان رکھتی تھیں۔ ابتدا میں وہ گھر سے باہر کی زندگی سے گھبراگئی ۔ ایک دن پر عزم لہجہ میں خود سے کہا، جب مجھے ملازمت کرنی ہی ہے تو بہادری کے ساتھ جینا ہوگا تا کہ مخاطب بات کرتے ہوئے احتیاط کرے۔ شام کو تھکی ہاری گھر پہنچتی تو عمیر اسکول کے ہوم ورک کے لئے اس کا منتظر ہوتا تھا۔ تازہ دم ہو کر بیٹے کے پاس بیٹھ جاتی اور ساتھ میں رات کے کھانے کا انتظام بھی کرتی ۔ ماں باپ بوڑھے تھے۔ ان پر بوجھ نہیں بنا چاہتی تھی ۔ اس نے ماں باپ کا بھی خیال رکھا۔ ماں باپ بیٹی کو دیکھ کر کڑھتے تھے۔

سنیل نے ستے اور پرانے سوٹ پہن کر جوانی کے دن گزار دیئے۔ بناؤ سنگھار تو جیسے وہ بھول گئی تھی۔ یہ نہیں تھا کہ جذبات مر گئے تھے، دل میں ہزاروں ارمان کروٹیں لیتے لیکن بیٹے کی خاطر ارمانوں کا گلا گھونٹ دیا۔ وقت گزرا۔ اماں ابا بھی رخصت ہوئے۔

عمیر کو کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کروایا۔ بعد ازاں اسے ملٹی نیشنل کمپنی میں پرکشش تنخواہ پر ملازمت مل گئی۔

اس نے ماں کی ملازمت چھڑوا دی۔ ایک دن عمیر دبلی پتلی نازک سی لڑکی کے ساتھ گھر میں داخل ہوا اور بولا ، اماں یہ نوشین ہے میرے ساتھ کالج میں پڑھتی تھی۔ سنبل نے لڑکی کو غور سے دیکھا۔ پھر چہرہ پر سرخی دیکھ کر سمجھ گئی کہ کیا ماجرا ہے۔ لڑکی کی پیشانی چومی اور ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگی۔ خاندان کے بارے میں پوچھا۔ بعد میں عمیر نے اماں کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے کہا، اماں ! نوشین کیسی لگی ؟ ماں نے انجان بنتے ہوئے کہا، ہاں اچھی ہے۔ یہ لو پیسے اور ساتھ والے اسٹور سے ایک پاؤ مرچیں لے آؤ۔ لا دیتا ہوں پہلے بتائیں کہ نوشین کیسی لگی ۔ ہاں بھی اچھی ہے۔ ظاہر ہے اس عمر میں لڑکیاں ویسے ہی اچھی لگتی ہیں۔ ماشاء اللہ خوب صورت ہے۔ لیکن تم کیوں پوچھ رہے ہو؟ پھر ہنتے ہوئے عمیر کو قریب کیا اور بولی، میرا بیٹا بڑا ہو گیا، مجھے پتہ نہیں چلا۔ تمہیں پسند ہے تو مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ کیا اس کے گھر والے راضی ہیں۔ ہاں اماں وہ راضی ہیں۔ بس آپ کی اجازت چاہئے۔۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور ستمبر 2019

Loading