Daily Roshni News

ابھی مت جاؤ رک جاؤ۔۔۔قسط نمبر2۔۔۔تحریر۔۔۔۔عابد محمود

ابھی مت جاؤ۔۔۔رک جاؤ

(قسط نمبر2)

تحریر۔۔۔۔۔۔عابد محمود

بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور ستمبر2019

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ابھی مت جاؤ۔۔۔رک جاؤ۔۔۔ تحریر۔۔۔۔۔۔عابد محمود)تھی ۔ عمیر نے مسکراتے ہوئے کہا۔ توقعات ہمیشہ آدمی کو توڑ دیتی ہیں۔ محبت کے ہزاروں کرشمے ہیں ان میں سے ایک توقع ہے۔ آدمی توقع کی چکی میں پس جاتا ہے۔ عمیر جس کے لئے اس نے زندگی کے ہر موڑ پر قربانی دی، بیوی کے آتے ہی ماں سے دور ہونے لگا۔ عمیر مجھے پسند نہیں ہے کہ تمہاری ماں ہر وقت گھر کے کاموں میں ٹوکتی رہے۔ ان کو میرا کوئی کام اچھا نہیں لگتا۔ ہر وقت کی سچ سچ سے تنگ آگئی ہوں۔ نوشین نے عمیر کے سامنے آنسو بہاتے ہوئے کہا۔ اماں دل کی بہت اچھی ہیں۔ دن رات میرے مستقبل کے لئے وقف کر دئیے۔ آج ان کی وجہ سے میں اس مقام پر ہوں ۔ انہیں سلیقہ پسند ہے۔ کیا میں بے سلیقہ ہوں ۔ مجھے نہیں معلوم کہ گھر کو کیسے رکھتے ہیں۔ آپ کا مطلب ہے میرے والدین نے مجھے سلیقہ نہیں سکھایا۔ نوشین ناراض ہو گئی۔ میں نے یہ کب کہا۔ میں تو کہہ رہا ہوں کہ کوشش کرو کہ اماں جیسا چاہتی ہیں ویسا کر لیا کرو۔ خوش ہو جائیں گی ۔ گھگیائے ہوئے لہجہ میں بولا۔ مجھ سے نہیں ہوتا۔ علیحدہ گھر دیکھ لیں ۔ آپ کی اماں کے ساتھ نہیں رہ سکتی ۔ نوشین منہ بناتے ہوئے بولی۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔ اماں کہاں جائیں گی؟

یہ آپ سوچیں، میرا مسئلہ نہیں ہے۔ میرے والدین نے اس لئے نہیں پڑھایا کہ پڑھ لکھ کر گھر میں کام والی بن جاؤں اور ہنڈیا دیکھتی رہوں ۔ ایسا کریں کہ مجھے نوکری کرنے دیں تا کہ گھر سے جان چھوٹ جائے۔ یہ کہہ کر نوشین نے آنسو بہانے شروع کر دیئے۔ عمیر بیگم کے آنسوؤں کے آگے ہار گیا۔

سنبل کو احساس ہوا کہ بیٹا کھچا کچھا رہتا ہے۔ میاں بیوی کام پر چلے جاتے اور وہ سارا دن گھر میں اکیلی ہوتی ۔ بہو کے رویہ سے وہ سمجھ گئی کہ اب اسے گھر عمیر کے حوالے کر کے گھریلو معاملات سے آزاد ہو جانا چاہئے ۔ بالائی منزل پر کمرہ صاف کیا اور اس کمرے تک محدود ہو گئی ۔ سارا دن کتابوں کا مطالعہ کرتی اور رات کو عبادت میں وقت گزارتی۔ اللہ نے خوب صورت پوتی دی ۔ سنبل نے خود کو نھی گڑیا ماہ رخ میں مصروف کر دیا۔ سارا دن بچی سے کھیلتی ۔ شام کو بہو اور بیٹا گھر لوٹتے تو بچی ان کے حوالہ کر کے کمرے میں لوٹ آتی ۔ اس کی حیثیت آیا سے زیادہ نہیں تھی۔

عمیر اور نوشین ماہ رخ کے ساتھ شادی کی تقریب میں شرکت کے لئے گئے ہوئے تھے۔ صبح سے سنبل کی کنپٹیوں میں ہلکی ہلکی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں ۔ بلڈ پریشر کی گولی کھائی اور لیٹ گئی ۔ اچانک محسوس ہوا کہ دائیں باز واور پیر نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے اور جبڑا کوشش کے با وجود نہیں ہل رہا۔ بولنے کی کوشش کی لیکن زبان محض گوشت کا ٹکڑا ثابت ہوئی ۔ وہ گھبراگئی۔ چینا چاہا مگر آوازاس کی اپنی سماعت میں بھی نہ پہنچ سکی۔ رات کو عمیر اور نوشین واپس آئے ۔ عمیر ماں کے کمرے میں داخل ہوا اور ان کی حالت دیکھ کر پریشان ہو گیا۔ اماں کیا ہوا؟ آنسو منبل کے گالوں پر بہنے لگے۔

نوشین گلاس کی کرچیاں دیکھ کر بڑبڑاتے ہوئے بولی ، سارا دن آفس میں کام کرو اور رات کو بڑھیا کے لئے جاگتے رہو۔ میرے نصیب میں تو آرام ہی نہیں۔ گلاس میں پانی ڈالا اور ناگواری سے اماں کو پانی پلاتے ہوئے بڑبڑاتی رہی۔ عمیر بھی گلاس گرنے کی آواز سن کر اٹھ گیا تھا۔ نوشین کی ناگواری دیکھ کر ماں کو گھورتے ہوئے بولا ، اماں کتنی بار کہا ہے کہ کسی چیز کی ضرورت ہو تو ٹیبل کھٹکھٹا دیا کریں، میں آ جاؤں گا لیکن آپ ! ہم ڈر گئے کہ اللہ رحم کرے کیا ہو گیا۔

نوشین تم سو جاؤ میں اماں کے پاس بیٹھتا ہوں۔ نوشین بڑ بڑاتی ہوئی کمرے میں چلی گئی۔ اماں آپ سمجھتی کیوں نہیں، وہ بے چاری سارا دن دفتر میں الجھی رہتی ہے۔ اسے آرام کی ضرورت ہے۔ سب کچھ تو آپ کے پاس رکھا ہے۔ آپ کے لئے کھانا بنانا، گھرداری، بچی کی دیکھ بھال، دفتر کے کام، آخر وہ بھی انسان ہے مشین نہیں۔

سنبل نے مسکراتے ہوئے بیٹے کی بہو کے لیے محبت دیکھی اور سوچنے لگی چلو میر کو کسی سے تو محبت کرنا آئی۔

ہاتھ کے اشارہ سے کہا، جاؤ میں ٹھیک ہوں ۔عمیر کمرے میں نوشین کے پاس بیٹھ کر موڈ درست کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ عمیر تم سے کتنی بار کہا ہے کہ دن کی طرح رات میں بھی آیادرکھ لو۔ آفس کے بعد مجھ سے تیمارداری نہیں ہوتی ۔ اتنا ہی شوق ہے ان کی تیمارداری کا تو ان کے کمرے میں سو جایا کرو۔ پتہ نہیں اس بوجھ کو کب تک اٹھاتے پھریں گے۔

نوشین ، اماں بے چاری سالوں سے بیماری جھیل رہی ہیں۔ ان پر ترس آتا ہے۔ دعا کرو کہ اللہ ان کی مشکل آسان کرے اور اپنے پاس بلا لے۔ سنبل نے بیٹے اور بہو کی باتیں سنیں تو آنسو آنکھوں کے گرد بنے گہرے حلقوں میں جمع ہو گئے ۔ بے بسی سے آسمان کی طرف دیکھا۔

بابا میری ماں کے لیے دعا کریں کہ وہ ٹھیک ہو جائیں بہت تکلیف میں ہیں ۔ اس عمر میں ان کو تکلیف میں دیکھتا ہوں تو کلیجا پھٹنے لگتا ہے۔ دعا کریں کہ اللہ ان کی مشکل آسان کرے اور اپنے پاس بلا لے۔ فقیر نے ناگواری سے عمیر کی طرف دیکھا اور بولے، پتر ماں جیسی ہستی اس دنیا میں نہیں۔ اللہ فرماتا ہے کہ میں ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہوں۔ یہ وہی ماں ہے جس نے تمہیں پیٹ میں نو ماہ رکھا اور خون کے قطرے پلا کر دنیا میں لائی۔ خود گیلے میں سوتی رہی تمہیں سوکھے میں سلایا۔ تمہاری ہر ضرورت کا دھیان رکھنا اپنے اوپر فرض کر لیا ۔ افسوس ! بچوں کو پالنے والے ماں باپ کوبڑھاپے میں اولا دمل کر نہیں پال سکتی! اولاد کے پاس وہ دل نہیں ہوتا جو ماں باپ کے پاس ہے۔ یہ دنیا فانی ہے اور یہاں فرد کا فرد سے رشتہ بھی فانی ہے۔ جو بچے ماں باپ کی قدر نہ کریں ، ان سے کیا بعید ! عمیر شرمندہ ہو گیا۔ بزرگ غصہ میں تھے۔ ہمارے پاس اپنے لئے دنیا مانگنے آتے ہو اور ماں کے لئے کہتے ہو کہ مجھ سے ان کی تکلیف دیکھی نہیں جاتی ، دعا کریں اللہ مشکل آسان کرے۔ شرم نہیں آتی ! کسی ماں نے آج تک نہیں کہا کہ میرا بیٹا زندگی و موت کی کشمکش اور تکلیف میں ہے ، دعا کریں کہ اللہ اسکی تکلیف ختم کر کے اس کو اپنے پاس بلا لے۔ جاؤ جس کی تمہارے جیسی اولاد ہو، اللہ اس ماں کی مشکل آسان کرے!

عمیر شرمندگی سے سراٹھا نہ سکا۔ بوجھل قدموں سے ۔ لوٹ آیا۔ سارا راستہ اماں کا ہنستا مسکراتا چہرہ اور گزری ۔ ہوئی زندگی فلم بن گئی۔ صبح صبح اماں کی تیاری ، ناشتا آ کروا کر اسکول چھوڑنا، کام پر جانا ، شام کو گھر آتے ہی کہ کھانا بنانا ، اس کے ساتھ بیٹھنا ، ساری ضروریات پوری کرنا۔ اس نے اماں کو مشین کی طرح کام کرتے دیکھا مجھے تھا۔ یا دنہیں کہ اماں نے کبھی اچھا لباس پہنا ہو، جو تھا سب اس پر قربان کر دیا یہاں تک کہ اپنی جوانی بھی۔ تصور میں بستر پر لیٹی ہوئی بے بس ماں کے چہرہ نے بے چین کر دیا ، وہ فورا ان کے پاس پہنچنا چاہتا تھا۔

کمرے میں داخل ہوتے ہی اماں کو آواز دی۔ وہ پر سکون چہرہ سورہی تھیں ۔ عمیر نے مدتوں بعد اماں کے لئے سوٹ خریدا تھا۔ لفافہ میں سے سوٹ نکالا اور آواز دے کر بولا ، اماں دیکھیں سوٹ لایا ہوں، آپ کو ہلکے رنگ بہت پسند ہیں ۔ لیکن ماں کے جسم میں حرکت نہیں ہوئی۔ عمیر کو عجیب احساس نے آگھیرا۔ آگے بڑھ کر ہلا یا جلایا۔ بایاں ہاتھ جو فالج سے محفوظ تھا، ڈھلک گیا۔ اللہ نے اس کی اماں کی مشکل آسان کر دی تھی!

انا للہ وانا الیہ رجعون

بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور ستمبر 2019

Loading