Daily Roshni News

حضرت بابا تاج الدین ناگپوریؒ۔۔۔تعلیمات اور کرامات

بابا تاج الدین اولیا ءؒ

قسط نمبر(1)

بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور ستمبر2019

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ بابا تاج الدین اولیا ءؒ)بابا ناگپور سے ایک عجیب و غریب واقعہ کی اطلاع موصول ہوئی ہے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک شخص جو ایک عرصہ قبل ٹریفک کے حادثے میں میں چلنے پھرنے سے معذور ہو گیا تھا اور اس واقعہ کے بعد ناگپور ریلوے اسٹیشن کے قریب بیٹھا بھیک مانگا کرتا تھا۔ وہ صرف ایک رات میں مکمل صحت یاب ہو گیا اور پہلے کی طرح چلنے پھرنے لگا۔ اس آدمی نے ہمارے نامہ نگار کو بتایا کہ اس نے گزشتہ ماہ ناگپور کے مسلمان بزرگ کے پاس حاضری دی تاکہ وہ اُن سے اپنی صحت یابی کے لیے درخواست کر سکے…. لیکن ایک ہفتہ گزر گیا اور اس کے اندر کوئی تبدیلی نہیں آئی تو اس نے مذکورہ بزرگ کو خوب برابھلا کہا اور کہا کہ وہ چاہیں تو میں ایک منٹ میں بھلا چنگا ہو جاؤں لیکن وہ میرے معاملے میں پتھر دل بن گئے ہیں …. ان سے تو میری بیساکھی اچھی ہے…..

ٹائمز آف انڈیا نے آج سے 94 سال قبل 18 جولائی 1925 کی اشاعت میں یہ خبر شائع کی تھی۔

سہارا تو دیتی ہے….“ مسلمان بزرگ تاج الدین نے اُس کی بات سنکر اُسے ڈانٹتے ہوئے کہا جا دفان ہو۔ بھلا چنگا ہو کر لنگڑا بنتا ہے….. جھوٹا کہیں کا یہ کہہ کر بابا صاحب لنگڑے کو  مارنے کو دوڑے لنگڑا بیساکھی چھوڑ کر بھاگا …. ٹائمز آف انڈیا نے مزید لکھا کہ ”ہمارے نامہ نگار کا کہنا ہے، ناگپور میں متعدد اشخاص موجود ہیں جو ،،

تاج الدير اوليا ؒاس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ مذکورہ شخص ایک ہفتہ قبل تک اپنی معذوری کی وجہ سے زمین پر رینگتا پھرتا تھا۔ “

بیسویں صدی عیسوی میں ہندوستان کے مرکز مہاراشٹر کے شہر ناگپور میں ایک ایسی ہستی نے جنم لیا جسے مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندوستان میں بسنے والی سب اقوام کے لوگ اپنا بزرگ مانتے ہیں۔ اس ہستی کے فیض سے ہزاروں افراد دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ خود ناگپور کا مہاراجہ جو مرہٹہ خاندان سے تھا، اس ہستی کا بہت بڑا معتقد ہوا، اس عظیم روحانی ہستی کو دنیا بھر میں حضرت بابا تاج الدین اولیا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

بابا تاج الدین کا تذکرہ کوئی قصہ پارینہ نہیں ہے۔ آج بھی ہمارے درمیان ایسے کئی لوگ موجود ہیں جنہوں نے خود یا ان کے بزرگوں نے بابا صاحب

کو دیکھا ہے، ان کی باتیں سنی ہیں، ان کے انداز و اطوار کا مشاہدہ کیا ہے۔ماضی قریب میں بہت سے لوگ ہم سے جدا بھی ہو گئے ہیں۔ جن کی آنکھیں بابا صاحب کی شان جلال و جمال کی امین تھیں۔ ان لوگوں میں عام طبقے سے لے کر اعلیٰ تعلیم یافتہ نہایت قابل اور مقتدر افراد شامل ہیں۔ حضرت بابا تاج الدین کے حالات زندگی اور کشف و کرامات پر گزشتہ نوے سال میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ سلسلہ عظیمیہ سے حضرت بابا تاج الدین کی خصوصی نسبت ہے کہ سلسلہ عظیمیہ کے امام حضرت محمد عظیم برخیا المعروف قلندر بابا اولیاء رشتے میں آپ کے نواسے ہیں۔ آپ کی ابتدائی تربیت حضرت با با تا جالدین نے ہی فرمائی تھی۔ یہاں ہم بابا تاج الدین کے حالات زندگی کےکچھ واقعات اور کرامات پیش کر رہے ہیں: تاج الدین کی ولادت 21 یا 27 جنوری 1861ء بمطابق 1279 ہجری کو بھارت کے صوبہ مہاراشٹر کے شہر ناگپور سے 15 کلومیٹر دور کا مٹی گاؤں ، محلہ گورا بازار میں ہوئی۔ آپ کے آباؤ اجداد مدینہ سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئے تھے۔ ہندوستان میں آپ کے خاندان کے بیشتر بزرگ فوج میں شامل ہوئے۔

تاج الدین ایک سال کے تھے تبھی ان کے والد کا انتقال ہو گیا تھا۔ نو سال کی عمر پوری ہوتے ہی ان کی والدہ بھی خالق حقیقی سے جاملیں۔ تاج الدین کی پرورش آپ کے نانا حضرت شیخ میراں، ماموں عبد الرحمن اور آپ کی نانی نے کی۔ حضرت تاج الاولیا نے ابتدائی تعلیم کا مٹی کے ایک مدرسے میں حاصل کی۔ بابا تاج الدین بچپن سے ہی غیر معمولی تھے، تاج الدین ایک روز مکتب میں موجود تھے کہ کامٹی میں سلسلہ قادریہ کے مشہور مجذوب بزرگ حضرت عبد اللہ شاہ قادری کا مٹی مکتب میں تشریف لائے اور بابا صاحب” کی جانب اشارہ کرتے ہوئے معلم سے فرمایا کہ اس کو کیا پڑھا رہے ہو ۔ یہ تو پڑھا میں رکھ کر کہا: کم کھاؤ، کم سو اور کم بولو اور قرآن شریف پڑھو۔ کہتے ہیں کہ خرما کھاتے ہی تاج الدین میں تبدیلی آگئی، اور ان کی اندر کی دنیا ہی بدل گئی۔ اس بات کا کوئی سراغ نہیں ملتا کہ بابا تاج الدین نے کسی کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ پھر بھی دو ہستیاں ایسی ہیں جن سے صرف قربت اور نسبت کا ذکر ملتا ہے۔ ایک سلسلہ قادریہ کے حضرت عبد اللہ شاہ قادری، دوسرے سلسلہ چشتیہ کے باباد اؤ د مکی۔ حضرت عبد اللہ شاہ قادری کا مزار کا مٹی اسٹیشن کے پاس ہے۔ نوجوانی کے زمانے میں بابا تاج الدین حضرت عبداللہ شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔

پڑھایا آیا ہے“…. اتنا کہہ کر عبد اللہ شاہ نے اپنی جھولی سے خرما نکال کر نصف خود کھایا اور بچا ہوا تاج الدین کے منہ سید تاج الدین نے پندرہ سال کی عمر میں قرآن پڑھ لیا تھا۔ اس کے بعد دیگر علوم کی تحصیل کی ۔ جب تاج الدین 18 سال کے تھے (سن 1879 تا

1880)تب کا مٹی میں بہنے والے کنہان دریا میں سیلاب آگیا۔ سیلاب سے ان کے مکان کو بھی کو کافی نقصان پہنچا۔ سن 1881ء میں ان کے ماموں عبد الرحمن نے انہیں ناگپور کی ریجمنٹ نمبر 13 میں بھرتی کروا دیا۔ فوج میں تین سال ملازمت کے بعد انہیں ساگر ( مدھیہ پردیش) جانا پڑا۔

ساگر مدراسی پلٹن کے خیمہ ( ملٹری کیمپ ) میں پہنچنے کے بعد دوران ملازمت وہیں ایک علاقے پیلی کو ٹھی میں سلسلہ چشتیہ کے بزرگ حضرت داؤد کی کے مزار پر تشریف لے جاتے۔ (حضرت داؤد مکی، خواجہ شمس الدین ترک پانی پتی کے خلیفہ تھے اور خواجہ شمس الدین ترک کو مخدوم علاؤ الدین علی احمد صابر کلیری سے خلافت ملی تھی۔ حضرت داؤد مکی اپنے مرشد کے حکم پر ساگر آئے اور یہیں وصال فرمایا)۔ تاج الدین فوجی ملازمت کے سلسلے میں ساگر میں قیام کے دوران آپ نے بابا داؤد مکی کے مزار پر تقریباً دو سال ریاضت و مراقبے میں گزارے۔ بابا تاج الدین کا معمول تھا کہ دن میں کام کے بعد پوری رات داؤد کی ساگری کے مزار اقدس پر گزارتے اور یاد الہی میں محو رہتے۔ کامٹی میں جب نانی کو اس بات کی خبر ہوئی کہ نواسہ راتوں کو غائب رہتا ہے تو انہیں فکر ہوئی کہ نانی صاحبہ ساگر جاپہنچیں تا کہ یہ معلوم کریں کہ نواسہ راتوں کو کہاں رہتا ہے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ تاج الدین خدا کی بندگی میں راتیں گزارتا ہے تو نانی کو اطمینان ہوا اور وہ نواسے کو دعائیں دیتی ہوئی واپس چلی گئیں۔

رفته رفته تاج الدین کا وقت داؤد مکی کی درگاہ پر زیادہ اور ڈیوٹی پر کم رہنے لگا۔ ایک روز فوج کے کیپٹن کے علم میں یہ بات لائی گئی کہ تاج الدین ڈیوٹی کے اوقات میں پہلی کو ٹھی کی درگاہ پر دیکھے گئے ہیں۔ اس کیپٹن نے تاج الدین کو تنبیہ کی اور کہا کہ پورے وقت ڈیوٹی پر حاضر رہا کریں، میں نوٹ کروں گا …! تاج الدین کو ملٹری کیمپ میں اسلحہ خانے پر پہرہ دینے کا کام سونپا گیا ، ایک رات دو بجے کے قریب فوج کا کیپٹن اچانک معائنے کے لیے آگیا۔ اس نے دیکھا کہ تاج الدین مستعدی سے ڈیوٹی دے رہے ہیں۔ کیپٹن انہیں دیکھ کر مطمئن روانہ ہو گیا۔ آدھے فرلانگ کے فاصلے پر ایک چھوٹی سی مسجد کے پاس سے گزرا ۔ مسجد کا صحن چاندنی رات میں صاف نظر آرہا تھا۔ کیپٹن نے دیکھا کہ وہ جس سپاہی کو پہرہ دیتے دیکھ کر آیا ہے۔ وہ خشوع و خضوع کے ساتھ مسجد کے صحن میں نماز ادا کر رہا ہے۔ سپاہی کو ڈیوٹی سے غفلت برتتے دیکھ کر اسے سخت غصہ آیا اور وہ واپس اسلحہ خانے آیا۔ انگریز کیپٹن سپاہی کو اپنی جگہ دیکھ کر سخت حیران ہوا اور کچھ کہے بغیر مسجد کا رخ کیا اور وہاں جاکر وہ حیران و ششدر رہ گیا کہ تاج الدین اسی طرح محویت کے عالم میں مصروف عبادت تھے۔ وہ ایک بار پھر اسلحہ خانے تصدیق کے لئے گیا اور وہاں ڈیوٹی دیتے دیکھ کر اس نے قریب آکر غور سے دیکھا کہ یہ وہی شخص ہے یا کوئی اور ؟ اس نے تاج الدین سے بات چیت کر کے اپنی پوری تسلی کر لی کہ ہاں یہ وہی شخص ہے۔

دوسرے دن ایک افسر کے سامنے تاج الدین

کی پیشی ہوئی۔ کیپٹن نے رات کے واقعے کی چشم دید۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور ستمبر2019

Loading