Daily Roshni News

محب وطن

مشرق سے اُبھرتا ہوا سورج ایک نئے دن کا آغاز کررہا تھا۔ اُفق پر نمودار ہونے والے سر مئی بادل کالی گھٹا کی آمد کا اعلان کررہے تھے ۔ہوا میں کچھ خنکی اور مٹی کی سوندھی خوشبو نے صبح کے اُجالے میں چار چاند لگادیے تھے ۔قریب ہی سے گزرتے ہوئے پرندے قدرت الٰہی کی حمد وثناء میں مشغول اپنی دھن میں چہچہارہے تھے کہ اچانک شمال سے اُٹھتی ہوئی کالی گھٹاؤں نے سورج کی کرنوں کو ڈھانک دیا اور اتنی زور کی بارش برسائی کہ کھیت کھلیان جل تھل ہو گئے۔گاؤں کے سبھی لوگ اس اچانک ہونے والی بارش سے محظوظ ہورہے تھے ،لیکن احمد اس ان ہونی بارش سے ناخوش تھا،کیوں کہ اس کی ساری فصل تباہ ہو چکی تھی۔یہ اس کی وہ فصل تھی جسے وہ کاٹ کر اپنی روزی کماتا تھا۔

احمد اپنے گاؤں کے ایک زمیندار کی زمین پر کاشت کاری کرتا تھا۔جس کے معاوضے سے اس کے گھر کا چولھا جلتا تھا ۔لیکن اس باروہ بہت پریشان تھا۔

گاؤں کے قریب ہی مکان میں وہ اپنی بیمارماں اور بیمار بیٹے کے ساتھ رہتا تھا ۔اس کے بیٹے کو شدید بخار تھا۔ اسی کشمکش میں وہ اپنا اُداس دل لیے کھیت سے گھر کی جانب روانہ ہورہا تھا۔
راستے میں بارش کی بوندیں اس کے شانوں سے ٹکڑارہی تھیں۔اس کے ذہن میں ماں اور بیٹے کی تکالیف کا منظر تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اپنے گھر کا خرچہ کیسے پورا کرے گا اور بیٹے اور ماں کے علاج کے لیے رقم کا بندوبست کس طرح کر سکے گا۔

یہ سوچتا ہوا جارہا تھا کہ اچانک سامنے سے آتی ہوئی کار سے اس کی ٹکر ہو گئی۔کار سے اُتر نے والے شخص نے اسے اُٹھا کر شہر کے اسپتال منتقل کیا اور اس کے لیے علاج کا انتظام بھی کیا۔یہ شخص ڈاکٹر احمد کے نام سے اس اسپتال کے سرجن تھے۔یہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ قریب ہی شہر میں مقیم تھے اور موسم خوشگوار دیکھ کر گاؤں کا رخ کررہے تھے کہ ان کی کار سے اچانک یہ حادثہ پیش آگیا۔

احمد کو پرائیوٹ وارڈ میں منتقل کیا جاچکا تھا۔وہ نیم بے ہوشی کی حالت میں اپنے گھر والوں کے نام پکار رہا تھا۔ہوش میں آنے کے بعد ڈاکٹر احمد نے اسے تسلی دیتے ہوئے اپنا تعارف کروایا۔پھر ڈاکٹر احمد نے کسان احمد سے کار کے آگے آنے کی وجہ پوچھی تو اس کے آنسو چھلک پڑے اور وہ بے اختیار اپنے گھر کے حالات بیان کرنے لگا۔یہاں تک کہ اس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔

ڈاکٹر احمد ایک درد مند دل رکھنے والے انسان تھے۔وہ مریضوں کا مفت علاج بھی کرتے تھے ۔انھوں نے احمد کی مدد کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اس کے گھر کے لیے راشن بھجوادیا اور گھر والوں کا علاج بھی اپنے ذمے لے لیا۔احمد کو ڈاکٹر احمد نے گھر چھوڑ دیا تھا اور اس کی زمین کے نقصان کا ازالہ بھی کر ڈالا۔
ایک طرف ڈاکٹر صاحب اپنا کام کررہے تھے تو دوسری طرف قدرت اپنے کارنامے دکھا رہی تھی کہ ڈاکٹر صاحب کو توجہ سے علاج کرنے پر ان کی ترقی ہو گئی۔

باہر سے آنے والے ایک ڈاکٹر نے دادد یتے ہوئے انھیں اپنے ملک میں بحیثیت سرجن کی نوکری کی پیشکش کی ،لیکن ڈاکٹر احمد کو اپنے وطن سے بہت محبت تھی ۔انھیں ان کھیت و کھلیانوں سے بھی بے حد محبت تھی جس کی مٹی میں سونا بننے کی بھر پور طاقت ہے ۔انھوں نے دوسرے ڈاکٹر کی طرح بیرون ملک جانے کے بجائے اپنے ہی ملک میں رہ کر ترقی کرنے کا فیصلہ کیا اور تہ دل سے اس ذات واحد کا شکر ادا کیا جو ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ نزدیک ہے۔

Loading