Daily Roshni News

فتنہ دجال۔۔۔تحریر۔۔۔ ڈاکٹر عبدالرؤف۔۔۔(قسط نمبر18)


تحریر ڈاکٹر عبدالروف
تاریخ 16 اگست 2022
کالم : ۔ مسیح الدجال ۔۔۔۔ دجال
کون
*دجال احادیث کی نظر میں

الدجالون الکذابون*

پچھلی قسط میں ھم ذکر کر چکے فتنہ انکار نبوت اور نبوت کے جھوٹے دعویدار دراصل فتنہ دجال کی ایک صورت ہیں ۔ جب کہ نبوت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو چکی ۔ اس سلسلے ہم قرآن و حدیث سے کچھ دلائل انتھائی اختصار سے بیان کر چکے ہیں اور کچھ کا ذکر ہم یہاں کریں گے۔
حضرت جبیر بن مطعم رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ رسولِ صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے:

اِنَّ لِیْ أَسْمَاءً، اَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَنَا أَحْمَدُ، وَاَنَا الْمَاحِی یَمْعُو اللّٰہُ بِیَ الْکُفْرَ، وَاَنَا الْعَاشِرُ الَّذِیْ یُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰی قَدَمَیَّ، وَأَنَا الْعَاقِبُ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَہ اَحَدٌ.

بے شک میرے کئی نام ہیں، میں محمد ہوں، میں احمد ہوں اور ماحی ہوں یعنی اللہ تعالیٰ میرے ذریعے کفر کو مٹائے گا اور میں حاشر ہوں یعنی لوگوں کا حشر میرے قدموں میں ہوگا، اور میں عاقب ہوں اور عاقب وہ شخص ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل،باب فی اسمائہ صلى الله عليه وسلم)

حضرت محمد بن جبیر اپنے والد حضرت جبیر بن مطعم رضى الله تعالى عنه سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:

لِیْ خَمْسَةُ أَسْمَآء اَنَا مُحَمَّدٌ، وَاَحْمَدُ، وَأَنَا الْمَاحِی الَّذِیْ یَمْحُوا اللّٰہ بِیَ الْکُفْرَ، وَأنَا الْحَاشِرُ الَّذِیْ یُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰی قَدَمِیْ، وَأَنَا الْعَاقِبُ.

میرے پانچ نام ہیں۔ میں محمد ہوں، اور میں احمد ہوں اور ماحی ہوں یعنی اللہ تعالیٰ میرے ذریعے کفر کو مٹائے گا۔ میں حاشر ہوں یعنی لوگ میرے بعد حشر کئے جائیں گے اور میں عاقب ہوں۔ یعنی میرے بعد دُنیا میں کوئی نیا پیغمبر نہیں آئے گا۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب ما جاء فی اسماء رسول اللہ صلى الله عليه وسلم حدیث: 3532، صحیح البخاری،

حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:

مَثَلِیْ وَمَثَلُ الْاَنْبِیَآءِ مِنْ قَبْلِیْ کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنٰی بَیْتًا فَاَحْسَنَہ وَاَجْمَلَہ اِلاَّ مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِیَةٍ فَجَعَلَ النَّاسَ یَطُوْفُوْنَ وَیَعْجَبُوْنَ لَہ وَیَقُوْلُوْنَ، ہَلَّا وُضِعَتْ ہٰذِہِ اللَّبِنَةُ؟ قَالَ فَأَنَا اللَّبِنَةُ، وَاَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ.

میری اور پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا ہو ،اس کو بہت عمدہ بنایا اور آراستہ پیراستہ کیا ۔ مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہوں اور تعجب کرتے ہوں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ( خاتم النبیین) ہوں۔

اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین صلى الله عليه وسلم، )

قرآن مجید کے اعلان ختم نبوت کے بعد یہ احادیث مبارکہ اپنی صحیح اسناد کے ساتھ ختم نبوت پر کافی اور شافی ہیں ۔ اگرچہ اور بھی متعدد احادیث اس موضوع پر موجود ھیں ۔ اس کے علاؤہ قرآن مجید کا ہر ورق ، اشارۃ النص سے بھی ختم نبوت پر دلیل ہے۔
اللہ کی طرف سے دین کی تکمیل کا اعلان ہی عقلی طور پر نبوت کے خاتمے کی دلیل ہے ۔ تکوینی طور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی ساری دنیا کے لیے آفاقیت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کی واضح اور بی٘ین دلیل ہے ۔

فتنہ کذابین

نبوت ایک وہبی منصب اور اللہ کا فضل ہے جسے اللہ جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ھے ۔ یہ اکتسابی عہدہ نہیں جو اپنی محنت اور مرضی سے مل جائے
کچھ نادانوں نے اسے اکتسابی عہدہ اور وجہ شہرت سمجھا اور اس کی خواہش کی۔ اور مختلف ادوار میں اپنے عقیدت مندوں اور شہرت کے بل بوتے پر جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا ۔
پیغمبر اسلام کی حیات طیبہ میں ہی یہ فتنہ سر اٹھا چکا تھا۔ چناچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی اور اس کے بعد بہت سے لوگوں نے نبوت کا جعلی دعویٰ کیا۔
یہ دعوی ہر دور میں چونکہ بہت بڑا جھوٹ فریب، انکار قرآن و حدیث ،اور لوگوں کے ایمان پر شب خون تھا اس لیے یہ فتنہ ، “فتنہ دجال” اور اپنے اپنے دور میں اس فتنے کے سرغنے اور نبوت کے جھوٹے دعوے دار حدیث کی الفاظ میں ” دجالوں الکذابون” کی اصطلاح سے موسوم ھوئے ۔ ان جھوٹے دجالوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے ۔ جبکہ نبوت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوچکی ہے۔

اب اگر قرآن مجید اور احادیث کی صاف وضاحت کے بعد کوئی شخص انسان یا جن نبوت کا دعویٰ کرے ، یا اس جھوٹے نبی پر یقین کرے ،یا ختم نبوت میں شک کا اظہار کرے ،یا جھوٹے کی نبوت کو استخارے یا معجزات مانگ کر پرکھنے کی کوشش کرے ۔ یا جھوٹے نبی کو بزرگ ، پیر یا مذھبی رھنما سمجھے اور اس کے خلاف اپنے دل میں نفرت کی بجائے نرم گوشہ رکھے۔ ایسے سب لوگ مسلمانوں سے ایمانیات کے میدان میں فرق اور انکار قرآن و حدیث کی وجہ سے کافر قرار پائیں گے اور دائرہ اسلام سے خارج ھوں گے ۔ اگر پہلے مسلمان تھے تو مرتد ہوں گے اور اشتہال پیدا کرنے ، جذبات مجروح کر کہ محاربہ پیدا کرنے کی وجہ سے واجب القتل قرار پائیں گے ۔

جاری ہے

Loading