Daily Roshni News

جیتی جاگتی زندگی۔۔۔پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔۔۔آخری قسط

جیتی جاگتی زندگی

پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا

(قسط نمبر2)

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اکتوبر 2017

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔جیتی جاگتی زندگی) اسکول اور مقامی معاشرے میں بالکل اس کے الٹ شخصی آزادی کا درس دیا جاتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ بچے کی شخصیت بنانے میں کسی بھی تعلیمی ادارے اور معاشرتی ماحول کا حصہ زیادہ ہوتا ہے۔ جب بچے دیکھتے دیکھتے ہمارے ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں اور 1 don’t care اور It is not your business کے الفاظ ہمیں سننے پڑتے ہیں تو وقت بہت آگے نکل چکا ہوتا ہے۔ پیچھے مڑ کر دیکھو تو ڈالروں کی شکل میں بینک بیلنس اور تھوڑی بہت جائیداد تو ہمارے پاس ہوتی ہے لیکن یہاں آنے والے اکثر والدین اپنی اولاد کو مغربی تہذیب کے اس اندھے اور خود غرض دلدل میں کہیں کھو چکے ہوتے ہیں۔ یہاں آکر احساس ہوا کہ بہتر مستقبل کے لیے پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔

ماں باپ کا پیار، گھر آباد

سارہ (ماسی کی لڑکی) کی ماں ایک شریف گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ خوبصورت نیلی آنکھوں والی پٹھان عورت جو کہ جوانی میں اپنی بیٹی کی ہی طرح خوبصورت ہو گی، بیوہ ہو گئی تو اپنی بیٹی کے ساتھ ایک زمیندار کے گھر میں نوکری کی غرض سے آگئی۔ زمیندارنی نے ترس کھا کر اس کو اپنے گھر میں کام کی غرض سے رکھ لیا۔ ساتھ میں اور شب و روز سکون سے گزرنے لگے۔ سرونٹ کوارٹر بھی دے دیا۔ سر چھپانے کی جگہ مل گئی اورشب و روز سکون سے گزرنے لگے۔

سارہ اس وقت چھوٹی تھی مگر بہت ہی پیاری شکل وصورت کی تھی۔ اس کی دوستی زمیندار کے بیٹے احسن سے ہو گئی۔ کھیلتے کھیلتے وہ جوان ہو گئے اور یہ بچپن کی دوستی کب عشق میں بدل گئی پتا ہی نہیں چلا۔ زمیندار کی بیٹی کی شادی تھی۔ زمیندارنی نے ڈھولکی رکھ لی۔ سارہ کو اچھی ڈھولکی بجانا آتی تھی۔ شادی کے موقع پر زمیندارنی نے فراخدلی دکھائی اور اپنی بیٹی کے پرانے کپڑے سارہ کو دے دیے۔ سارہ کے تو مزے آگئے۔ ہر روز نیا جوڑا پہن کر تیار ہو کر شادی کے کاموں میں حصہ لینے لگی۔

 زمیندار کی بیٹی کی شادی میں ایک روز سارہ پنک کلر کے جوڑے میں بہت اچھی لگ رہی تھی۔ احسن اسے دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ وہ خود اپنی اس بے خودی : پر حیران تھا۔ نظروں کی تپش سارہ نے بھی محسوس کی کر لی۔ شرم سے لال سرخ ہوتی سارہ اپنے آپ میں نے

سمٹ کر ماں کے اور قریب ہو گئی۔پھر تو پوری شادی  میں یہ سلسلہ چلتا گیا اور عشق بڑھتا گیا۔ کہتے ہیں عشق اور مشک چھپائے رے نہیں چھپتا۔ احسن کی بہن نے کاک ان کو راز نیاز کرتے پکڑ لیا۔ کہا گھر میں ایک ادھم مچ گیا۔ زمیندار نے جب سنا تو غصے میں فوراً ان کو گھر سے نکل ساک جانے کا حکم دیا۔ ماسی سکینہ پر یہ گڑیا خبر بجلی بن کر گری اور وہ رونے دھونے لگی۔ سارہ کو خوب کو سا اور سارماں کی ڈانٹ اور مار کے ڈر سے ہر وہ چیز کرنے کو تیار تھی جس سے اس کی ماں کی عزت محفوظ رہ جائے۔

 مگر زمیندار کا بیٹا احسن کسی بھی طرح سارہ کا ساتھ چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھا۔ وہ سرونٹ کوارٹر میں گھس آیا۔ سارہ اور اس کی ماں جو کہ ڈرے سہمے گھر چھوڑنے کی تیاریوں میں لگے ہوئے تھے گھبرا گئے۔ ماسی سکینہ نے دونوں ہاتھ جوڑ کر منت سماجت کی کہ تم یہاں سے جاؤ مگر احسن پر تو عشق کا بھوت سوار تھا۔ اس نے دھمکی دی وہ بھی ساتھ جائے گاورنہ وہ خود کشی کر لے گا۔ لہذا رات کی تاریکی میں پناہ کی تلاش میں یہ تینوں بھٹکنے لگے۔ آخر ماسی سکینہ اپنی بیٹی سارہ اور احسن کے ساتھ رات کے اندھیرے میں ریلوے اسٹیشن پہنچے مگر زمیندار کے آدمی وہاں موجود تھے۔ یہ چھپتے چھپاتے بس اڈے پہنچے مگر وہاں بھی زمیندار کے آدمی موجود تھے۔ آخر میں احسن نے اپنے ایک بڑے اچھے عزیز دوست کو فون کر کے ساری صور تحال سمجھائی تو وہ ان کی مدد کے لے گندم کا ٹرک لے آیا اور گندم کی بوریوں کے درمیان ان کو بٹھا کر کسی نہ کسی طرح گاؤں سے شہر لے آیا اور اپنے رشتہ داروں کے گھر یہ کہہ کر ٹھہرادیا کہ یہ ویزا لگوانے آئے ہیں۔ کچھ دن یہاں رہیں گے ۔ احسن یہ بات سن کر چونکا، گھر سے وہ کافی رقم لے کر آیا تھا۔ اس نے عزیز سے کہا تم نے بڑا اچھا آئیڈیا دیا ہے۔ “اگر تمہارا کوئی جانے والا پاسپورٹ آفس میں ہے تو ہم سب کے پاسپورٹ بنوادو اور کہیں باہر کا ویز الگواد و۔ اس زمانے میں یہ کام اتنا مشکل نہیں کا دروازہ کھلنے کا انتظار کرنے لگی۔ ایک ایک کرکے ہوتا تھا۔ عزیز کے ایک دوست نے ان کا پاسپورٹ اور ماضی کے دروازے کھلتے چلے گئے ۔ تب احساس ہوا کہ یز الگوانے میں ان کی بھر پور مدد کی اور بالآخر لندن کا ویز الگ کیا۔

 ماسی سکینہ نے سارہ اور احسن کا سادگی سے نکاح کروایا اس طرح یہ نکاح کے بعد تینوں لندن پہنچ گئے۔ احسن نے کافی جدوجہد کے بعد ایک اچھی نوکری تلاش کر لی ایک گھر کرائے پر لیا۔

 وقت گزرتا گیا۔ سارہ اور احسن کے تین بچے ہو گئے۔ ایک لڑکی اور ایک لڑکے کی شادی کردی، تیسر الڑ کا جو سب سے چھوٹا تھا اور لاڈلا تھا اچانک اماں ابا کے سامنے آکھڑا ہوا کہ ماما پاپا مجھے ایک گوری لڑکی بے حد پسند ہے۔ میں اس سے محبت کرتا ہوں اور وہ میری خاطر مسلمان ہونے کو بھی تیار ہے۔

 احسن کے گھر کا ماحول کشیدہ ہو گیا۔ سیارہ اور ماسی سکینہ یہ صور تحال دیکھ کر گھبرا گئیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا اس معاملے کو کیسے حل کرے۔ باپ بیٹے کی جنگ دیکھ دیکھ کر اسے ہول اٹھتے تھے کہ نہ جانے کس کی نظر لگ گئی ہے اور ہنستا بستا گھر میدان جنگ بن گیا۔

 بیٹا اس لڑکی کی خاطر گھر چھوڑنے کو تیار تھا۔ تب اچانک سارہ کو اپنے ساس سسر یعنی احسن کے ماں باپ کا خیال آیا۔ جن کے بارے میں انہوں نے پلٹ کر یہ تک معلوم کرنے کی کوشش نہیں کہ وہ کس حال میں ہیں۔ مر گئے یا زندہ ہیں۔ رشتہ داروں اور محلے والوں میں ان کی بدنامی ہو گئی تھی۔ پس ایسے میں اللہ یاد آیا کہ اے رب تو رحمان ہے مجھ پر کرم کر۔ میں بڑی گناہ گار اور خطا کار ہوں۔“ جائے نماز بچھا کر تو بہ  کا دروازہ  کھلنے کا انتظار کرنے لگی۔ایک ایک کرکے ماضی کے دروانے کھلتے چلے گئے۔ تب احساس ہوا کہ اولاد کی محبت کیا ہوتی ہے۔۔۔؟ احسن کے ماں باپ

کس کرب سے گزرے ہوں گے۔ اس کا احساس دلانے کے لیے اللہ تعالی نے اس آزمائش میں ڈالا۔ رو رو کر دعائیں مانگیں اور پھر وہ احسن کے سامنے جاکھڑی ہوئی۔

احسن کیا تم اپنی پچھلی زندگی بھول گئے ہو۔ تم نے میرے عشق میں اپنے ماں باپ کا کتنا دل دکھایا تھا اور اس وقت تو تم کہتے تھے کہ مجھے پسند کی شادی کا اختیار ہے۔ زبردستی کی شادی اسلام میں منع ہے۔ میں نے جو کیا وہ ٹھیک کیا۔ اب وہ دعوے، وہ حقوق کہاں گئے ….؟ اٹھو اللہ کے سامنے جا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگو۔ بیٹے کو سمجھاؤ۔ اللہ تعالی نے اولاد کو سمجھانے کا حق دیا ہے۔ سمجھ جائے تو ٹھیک ہے ورنہ اس کو اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرنے دو۔

احسن حیران و پریشان سارہ کے چہرے کی طرف دیکھتا رہا جو نڈر بن کر اپنے چھوٹے بیٹے کی وکالت کر رہی تھی۔ اپنے ماں باپ کی بے بسی اور محبت نے آنکھوں میں آنسو بھر دیے اور وہ بھی خدا کے حضور جا بیٹھا۔ خدا سے معافی مانگی تو بہ استغفار کی۔ اس کے بعداپنے بستر پر لیٹ کر بہت سوچا۔

 اپنے بیٹے کو بلایا۔ پیار کیا اور اپنے والدین کا نمبر دیا کہ فون ملاؤ اور اپنے دادا، دادی سے میری بات کراؤ۔ بیٹے نے ٹیلی فون ملایا۔ گنٹیاں بجتی رہیں آخر ایک نخیف کی آواز سنائی دی جو کہ غالباً احسن کے والد (زمیندار) کی تھی۔ نوید نے ان کا نام پوچھا اور بتایا کہ میں نوید بول رہا ہوں لندن سے۔ میرے والد آپ سے بات کریں گے۔ احسن نے فون کیا اور ”ہیلو“ کہا۔

 دوسری طرف سے زمیندار کی کانپتی ہوئی آوازآئی ”ارے احسن یہ تو ہے۔“ اور وہ بے تحاشا رونے لگے۔ ادھر احسن ہچکیاں لے لے کر باپ سے معافی طلب کر رہا تھا۔ زمیندار اور زمیندارنی نے باری باری بات کی اور کہا کہ بیٹا تم نے بہت غلط کیا مگر ایک مرتبہ بھی خوشامد اور پیار سے ہمیں منا لیتے تو ہم خود تمہاری شادی کر دیتے۔ تم ہم کو چھوڑ کر اتنی دور جا کر بس گئے۔ پلٹ کر پوچھا بھی نہیں۔“

دونوں طرف سے معافی تلافی ہوتی رہی اور نوید یہ سب دیکھ کر حیران تھا۔ احسن نے فون بند کر کے نمایاں نوید سے کہا۔ بیٹا ایک شرط پر تیری شادی تیری پسند سے کروں گا تو ولیمہ پاکستان میں اپنی دادی اور دادا کے ساتھ ، ان کے پاس جاکر کرے گا۔“ نوید خوشی سے باپ سے لپٹ گیا۔ سارہ اور ماسی سکینہ کی آنکھوں میں ندامت اور خوشی کے ملے جلے آنسو تھے۔ اللہ تعالی کی اس رحمت پر حیران تھے۔ ماں باپ نے صبح کے بھولے کو قبول کر لیا تھا۔

آج پاکستان میں نوید کا ولیمہ تھا۔ دادا، دادی، باپ، بہو، پوتا پوتی سب ایک چھت تلے جمع تھے اور خوشیوں کا سماں تھا۔ ماں باپ کی بے لوث محبت خوشیاں بکھیر رہی تھی۔ کاش اولاد یہ سمجھ سکے کہ ماں باپ کی خوشامد اور ان کے پیار کو ہاتھ جوڑ کر، گود میں سر رکھ کر ، پاؤں پکڑ کر پالے تو یقیناً ان کا دل بھی موم ہو جائے گا۔ یقیناً ماں باپ کا پیار، گھر آباد کرتا ہے اور ماں باپ کی دعاؤں سے گھر آباد ہوا کرتے ہیں۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اکتوبر 2017

Loading