Daily Roshni News

شعور کا منبع کیا ہے؟۔۔۔ تحریر۔۔۔انیلا شان۔۔۔قسط نمبر1

شعور کا منبع کیا ہے؟

ہمہ  نفیست panpsychism

تحریر۔۔۔انیلا شان

(قسط نمبر 1)

ہالینڈ(ڈیلی روشنی  نیوزانٹرنیشنل ۔۔۔ شعور کا منبع کیا ہے؟۔۔۔ تحریر۔۔۔انیلا شان )شعور کیا ہے ؟ کہاں سے آتا ہے ؟ کیا کائنات کی ہر شئے شعور رکھتی ہے۔ ماہرین کے مطابق کائناتی شعور ہمارے عقب میں موجود وہ قوت ہے جو پورے نظام کائنات کو ذرے سے لے کر سورج، قطرے سے لے کر سمندر اور جمادات سے لے کر انسان تک کو نہایت حسن و خوبی کے ساتھ چلارہی ہے۔ ہم سب کے ذہن اس ہمہ گیر کائناتی شعورسے جڑے ہوئے ہیں۔ جب انفرادی ذہن  کا براہ ر است رشتہ اس ہمہ گیر کائناتی شعور سے قائم ہو جاتا ہے تو حیرت ناک کرشے ظہور میں آتے ہیں۔

فلسفی اور سائنس دان روز اول سے عقل و شعور پر سوچ بچار اور بحث کرتے چلے آئے ہیں۔ مختلف ادوار میں مختلف فلاسفہ اور سائنسی ماہرین نے شعور کے بارے میں بہت سے نظریات، افکار اور مفروضے پیش کیے مگر اس کی وسعت تک نہیں پہنچا جا سکا۔ انہی میں سے ایک پینسائیکزمPanpsychism بھی ہے جس سے مراد ہمہ نفسیت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کی ہر شئے زندہ ہے اور شعور رکھتی ہے۔

اس سوال کی ابتداء کہاں سے ہوئی؟ کوئی نہیں جانتا۔ تاہم مختلف ادوار میں فلاسفر ، طبيعات دان، مفکر ہوں یا پھر دیگر ذی شعور افراد زندگی کےکسی نہ کسی دور میں اس سوال پر ضرور آئے ہیں کہ آخر یہ

 شعور کیا ہے؟

 عقل کیا ہے؟

 کہاں سے آئی ہے؟

 ان سوالات یا کھوج کی وجہ کیوں پیدا ہوئی؟

وہ کیا مظاہر ہیں جو یہ سوالات پیدا کرتے ہیں؟

اس کی وضاحت کے لئے برمنگھم یونیورسٹی میں فلسفہ کے پروفیسر یو جین ناگاساوا .Prof Yujin Nagasawa لکھتے ہیں کہ

بچپن میں چاند کو دیکھ کر میں اپنے ایک خیال سے بے حد محظوظ ہوتا تھا۔ وہ یہ کہ چاند زندہ ہے اور مجھے دیکھتا بھی ہے۔ جب میں اپنے گھر سے  اسکول جاتا تو انسان کو دیکھتے ہوئے جاتا۔ اس یقین کے ساتھ کہ چاند مجھے دیکھے رہا ہے اور اس وقت تک دیکھتارہے گا جب تک میں خیریت سے ہی نہ جاؤں۔

یہ ایک ایسی کیفیت ہے جو بچوں میں عام پائی جاتی ہے انہیں اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ دنیا میں موجود ہر شئے چاہے ناقابل حرکت ہی کیوں نہ ہو جیسے چاند، پہاڑ، درخت، پتھر سب کے سب زندہ ہیں۔ اسی لئے وہ کھلونوں سے باتیں کرتے ہیں ان سے کھیلتے ہیں ۔ یہ کیفیت انیزم Animism کہلاتی ہے۔

آپ نے مشہور اینیمیٹڈ فلم ٹوائے اسٹوری دیکھی ہو گی۔ اس فلم جس کا مرکزی خیال بھی یہی ہے کہ بچوں کے کھلونے حقیقت ! زنده مخلوق ہیں جو شعور رکھتے ہیں اور آپس میں باتیں بھی کرتے ہیں، مگر انسان اس سے انجان ہیں۔

باہر نفسیات جین پیجیٹ Piaget Jean کے پاس Animism Child

سے متعلق کئی مثالیں موجود ہیں۔ جیسے اسکول سے گھر جاتے وقت ایک ہی وقت میں مختلف اقسام کے پھول گھرلے کر جانا اس احساس کے ساتھ کہ ہم اکیلے نہیں ہیں یا پھر راستے میں پڑے ہوئے چھوٹے چھوٹے پتھروں کو پیرسے دوسری جانب پھینک دیا تا کہ ہر بار انہیں ان پتھروں کی جگہ مختلف نظر آئے۔ جین پیجیٹ کے مشاہدے کے مطابق

Animism بچوں میں بھی پایا جاتا ہےاور ان کے بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ ختم ہوتا جاتا ہے۔

Animism کا یہ احساس یا مفروضہ دراصل پینسائیکیزم کی ابتدائی شکل ہے۔ مگر جو چیز نظر نہیں آتی اس پر یقین کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ جیسے کہ یہ مانا کہ پھر احساس رکھتے ہیں۔ یا چاند ہمیں دیکھ رہا ہے۔

فلسفہ اور سائنس تاحال شعور کی پہچان میں مصروف ہیں۔ انسانی ذہن کی ترقی کے ساتھ اب بہت کی چیزیں واج ہو رہی ہیں۔ اس معمے کو وضاحت سے سمجھانے کیلئے HG Well,s نے ایک کہانی The Country of the Blind تحریر کی۔

یہ مختصر کہانی ایک ایسی وادی کے بارے میں تھی جہاں کے رہنے والی تمام افراد بینائی سے محروم تھے ۔ یہ وادی دنیا سے الگ تھلگ پہاڑوں کے در میان واقع تھی۔۔ کہانی کا ہیر و ننیز Nanez ایک پہاڑی نوجوان ہے۔ ایک دن گھومتے گھامتے وہ اس وادی میں بن جاتا ہے۔ اسے حیرت ہوتی ہے کہ یہ ان کے لوگ نابینا ہیں مگر خود کو مکمل تصور کرتے ہیں اور ہر لحاظ سے خوش ہیں۔ وہ ان لوگوں کو بتاتا ہے کہ اس کے پاس پانچویں حس یعنی   بینائی بھی ہے ۔ اور وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے۔ وادی کے لوگ اس کی بات پر یقین نہیں کرتے۔ اس وادی میں قیام کے دوران نینیز کی ملاقات وہاں کی ایک نابینا دوشیزہ سے ہو جاتی ہے۔ نینیز اس کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے اور اس سے شادی کرنا چاہتا ہے ۔ مگر وادی کے لوگ ان کی شادی کے خلاف ہو جاتے ہیں۔ اس مخالفت کی وجہ نینز کا ان سب سے مختلف ہونا یعنی اس کے پاس بینائی کا موجود ہونا تھا نینیز دیکھ سکتا تھا۔ وادی میں رہنے والے نابیناؤں کے نزدیک نیشیز ایک ایسی جس سے منسلک ہے جو موجود ہی نہیں۔ نینز کے لئے ان لوگوں کو یہ سمجھانا ناممکن تھا کہ بینائی کیا ہے….؟ آنکھوں سے دیکھنا کیسا لگتا ہے۔

بس یہی کچھ کیفیت شعور کو سمجھنے اور اس کے وجود کو قبول کرنے کی بھی ہے۔

اس کہانی کے فلسفیانہ خیال کو ایک تجرباتی شکل میں 1982ء میں فلاسفر فرینک جیکسن نے نیشنل یونیورسٹی آسٹریلیا میں پیش کیا اور شعور کے اسرار کو

Mary کے ایک فرضی کردار کی مثال سے واضح کرکے سمجھانے کی کوشش کی گئی ۔ فرض کریں کہ Mary مستقبل کی مشہور سائنس دان ہے، جس کی پوری زندگی ایک بلیک اینڈ وائیٹ کمرے میں گزری۔ وہ اپنے کمرے سے بھی باہر نہیں آئی۔ یہاں تک کہ زندگی سے جڑی ہر چیز کو جاننےکے لیے اس نے طبیعات، کیمسٹری اور نیوروسائنسز سے متعلق بلیک وائیٹ کتابوں اور بلیک وائیٹ ٹی وی پر نشر کیے جانے والے متعلقہ پٹرز کا سہارا لیا۔ وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف تھی کہ ہمارا دماغ کس طرح کام کرتا ہے۔ دماغ سے جڑے نیورل پروسس کب اور کیسے حرکت میں آتے ہیں۔

فرض کریں کہ Maryاپنی زندگی میں پہلی بار اپنے کمرے سے باہر آتی ہے اور جو چیز سب سے پہلے اس کی نظروں کے سامنے آتی ہے اس دیکھ کر بے اختیار اس کے منہ سے A Ripe Tomato کے الفانکلتے ہیں۔ یہ بھی کوئی عجیب بات نہ ہو گی جب وہ کہے کہ واہ لال رنگ ایسا نظر آتا ہے۔

جس کا مطلب وہ باہر کی دنیا میں قدم رکھ کر مزید کچھ نیا سیکھے۔ لیکن دیکھنے سے سیکھنے کا عمل بڑھتا ہے ۔ مگر پھر یہ وہ احساسات اور کیفیات ہم کیسے جان پاتے ہیں جو ہم دیکھ نہیں سکتے۔

ہمارا مطلب ہے کہ بظاہر دیکھنے میں دماغ ایک ایساہی مادے سے بنا ہوا عضو ہے جیسے کہ معده یا پھیپھڑے۔ اور جب معدے یا بچھڑے کی بات ہوتی ہے تو ان کا کام اور پر دس مکمل طور سے واضح نظر آتا ہے ۔ ان میں کوئی روحانی با مافوق  الفطر ت کیا اور آئی بات دیکھنے میں نہیں آتی۔ مگر جب دماغ کی بات ہوتی ہے تو ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ عقل و شعور آخر کس طرح کام کرتے ہیں۔ سیکھنے کا عمل کس طرح پر وس ہوتا ہے۔ وہ کیفیات احساست اور ان سے متعلق احساس کس طرح آتے ہیں۔ جیسے درد کی وہ شدت جو ٹانگ میں بل پڑ جانے کے وقت پیدا ہوتی ۔ یا پھر پند بده موسیقی سنتے وقت وہ خوشی اور سکون جو محسوس ہوتا ہے ۔ ایک دماغ کس طرح سے شعور پیدا کرتا ہے۔

شعور کیا ہے؟

 اب تک شعور پر کی جانے والی تحقیقات کے مطابق سادہ سے الفاظ میں شعور اپنے آپ سے باخبر ہونے کو یعنی باہوش و حواس ہونے کو کہا جاتا ہے۔ انگریزی میں اسے Consciousness کو نشنین کہتے ہیں ۔ در حقیقت شعور نیورونز کا ایک جال ہے۔ ہماری سوچ باشعور ایک مربوط عصبی نظام کا نام ہے ، جو ہمیں ہمہ وقت اپنے آپ سے آگاہ رکھتا ہے۔

جب ہم سوتے ہیں تو یہ ربط ٹوٹ جاتا ہے اور دماغ کے اندر پہلے سے موجود اطلاعات کے علاوہ کوئی بات نہیں ہوتی۔ یہی نیند کی کیفیت ہے اور انہی محدود معلومات کو ہم خواب کی صورت میں دیکھتے ہیں۔

انسانی دماغ برقی سگنل وصول اور خارج کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر آنکھ جو کچھ دیتی ہے اس کا اثر فوٹونز آپٹک نروپ پڑتا ہے جس کا ہر سیل ایک برقی سگنل خارج کرتا ہے۔ یہ تمام سگنل دماغ کے بنیادی خلیے یعنی نیورون کی طرف جاتے ہیں۔ ایک دماغ میں ایک سو بلین نیورونز ہوتے ہیں۔ یہ نیورون سائل لینے کے بعد پراسیس کر کے انہیں آگے بھیج دیتے ہیں۔ یہ برقی سگنل۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اکتوبر 2017

Loading