Daily Roshni News

صدائے جرس۔۔۔تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب

صدائے جرس

صوفیاء

تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ صدائے جرس۔۔۔ تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب)جب سے نوع انسانی نے زمین پر آنکھ کھولی ہے لاکھوں، اربوں آدم زاد اس زمین سے ابھرے اور جب ان کی روحوں نے جسموں سے اپنار شتہ منقطع کر لیا، اس دھرتی نے ان کے خاکی جسموں کو خاص و عام کی تخصیص کے بغیر اپنی آغوش میں سمیٹ لیا … کیا بادشاہ! کیا فقیر سب سطح زمین کے نیچے جاچھے.

اسی زمین کے ایک شہر لاہور میں راوی کے اس پار مقبرہ جہانگیر ہے، اس سے آگے بڑھیں تو ملکہ نور جہاں کا مقبرہ ہے …. وہاں دن کو بھی شب کی سیاہی کا سماں رہتا ہے ، رات میں وہاں کوئی چراغ نہیں جلتا، کوئی قرآن خوانی نہیں ہوتی، نہ ہی ذکر کی محفلیں ہوتی ہیں، ہر سو ویرانی سی و برانی نظر آتی ہے لیکن راوی کے اس پار اللہ کے ایک ولی حضرت داتا صاحب کا دربار ہر وقت ذکر الہی سے گونج رہا ہے، قرآن خوانی ہو رہی ہے ، نہ جانے ہر سال کتنے ہزار قرآن پاک یہاں پڑھے جاتے ہیں، کتنی دعائیں اللہ کے حضور مانگی جاتی ہیں، کتنے ٹوٹے ہوئے اور دکھی دل یہاں آکر اطمینان کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں، ہزار ہا نمازی یہاں نوافل پڑھتے ہیں، صدقات دیے جاتے ہیں اور کھانے پکائے جاتے ہیں جو مفلوک الحال لوگوں کو سیر کرتے ہیں…. ذکر الہی کی محفلیں منعقد ہوتی ہیں اور کتنے ہی بزرگ ملک کے کونے کونے سے آتے ہیں جن کے پند و نصائح سے لوگ فیض یاب ہوتے ہیں، درود پاک کی بارونق محفلیں منعقد ہوتی ہیں، علماء کرام اور مشائخ عظام یہاں تشریف لا کر اسلام کی روحانی تعلیمات سے لوگوں کو روشناس کراتے ہیں،

دربار سے ملحقہ مسجد اسلامی عظمتوں اور سطوتوں کا مظہر نظر آتی ہے….. ایک طرف جہا نگیر اور نور جہاں کے مقبروں کا حال ہے ہیں جو ایک زمانے میں ہندوستان کے سیاہ وسپید کے مالک تھے…. دوسری طرف داتا صاحب کا مزار ہے جو اپنی زندگی میں نہ کسی دنیاوی حکومت کے مالک تھے نہ آپ کےپاس مال وزر کا کوئی ڈھیر تھا….! حضرت داتا گنج بخش نے اپنی زندگی میں وعظ و نصیحت، تحریروں اور کتابوں سے اسلام کی بھر پور خدمات سر انجام دیں اور یہ خدمت نو سو چھیاسٹھ سال سے آج تک جاری ہے…. 966 ہجری سال گزر گئے …. آپ کا تصرف لوگوں کے قلب پر نقش ہے نقش ہو تا رہا اور نقش ہو تا رہے گا۔ اس عرصے میں بے شمار لوگوں نے حضرت داتا گنج بخش سے روحانی فیض حاصل کر کے اکتساب علم کیا … الحمد اللہ سلسلہ عظیمیہ بھی حضرت داتا گنج بخش کے فیض سے بہرہ مند ہے۔

حضرت معین الدین چشتی، خواجہ غریب نواز بھی اسی کارواں کے ایک ممتاز فرد ہیں جن کے دم قدم سےہندوستان میں اسلام پھیلا۔

تاریخ بتاتی ہے اور اس سے کوئی آدمی انکار نہیں کر سکتا کہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے زمانے میں ہندوستان میں لاکھوں غیر مسلم مسلمان ہوئے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ بر صغیر میں اسلام کو جو وسعت ملی ہے وہ صوفیاء کرام کے ذریعہ ملی ہے۔ صوفیاء کرام نے لوگوں کو متحد و یکجا کر کے ، ان کی خدمت کر کے ، اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کر کے ، لوگوں کو مسلمان کیا ہے۔ اسپین میں جہاں ساڑھے سات سو سال مسلمانوں کی حکومت رہی آج مسلمانوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لیے کہ وہاں حضرت داتا گنج بخش ، خواجہ معین الدین چشتی اور ان جیسے صوفی بزرگ نہیں تھے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب چنگیر خانی طوفان نے دنیائے اسلام کو تہ و بالا کر کے رکھ دیا تھا…. شہر ویران ہو گئے تھے … لوگوں کو قتل کر کے ان کے سروں کے مینار بنا دیے گئے تھے …. بغداد کی آٹھ لاکھ آبادی میں سے چار لاکھ قتل و غارتگری کی بھینٹ چڑھ گئے تھے علم و حکمت اور ہر قسم کے علوم کی کتابوں کا ذخیرہ آگ کی بھٹیوں میں جھونک دیا گیا تھا … علماء و فضلاء اور دانشور، اسلام کے مستقبل سے مایوس ہو گئے تھے…. اس وقت اس سرکش طوفان کا رخ انہی لوگوں (اگر وہ صوفیاء) نے موڑ دیا تھا…. طوفانوں کا مقابلہ کر کے ان لوگوں نے اسلام دشمن لوگوں کی اس طرح تربیت کی کہ اسلام کے دشمن شمع اسلام کے لیے پروانہ بن گئے تھے۔ انہی صوفیاء کے گروہ کے ایک آدمی نے ظلم و جبر ، بے حیائی ، قتل و غارتگری اور بدنیتی کی فضاء کو بدل دیا تھا…. تاریخ کے صفحات پلٹتے جائے …. اہل تصوف اور روحانی لوگوں کا ایک قافلہ ہے جو دین اسلام کو پھیلانے میں مصروف نظر آتا ہے اللہ نے ان فقراء کو کامیابی اور کامرانی سے نوازا ہے۔

پاکستان، بھارت، برما، ملائیشیا، انڈونیشیا، افریقہ، ایران، عراق، چین غرض ہر ملک میں اولیاء اللہ نے تبلیغ کی، اللہ کی مخلوق کی خدمت کی ، زمانے کے تقاضوں کے مطابق توحید کی دعوت دی … تاریخ کے اوراق گواہ ہیں ، اگر شیخ محی الدین عبد القادر جیلانی ، خواجہ حسن بصری، حضرت داتا گنج بخش، شیخ معین الدین چشتی اجمیریؒ، حضرت بہائو الدین زکریا ، بہائو الحق نقشبند، لعل شہباز قلندر، شاہ عبد الطیف بھائی، اور دوسرے مقتدر اہل باطن صوفیاء، اسلام کی آبیاری نہ کرتے تو آج دنیا میں مسلمان اتنی بڑی تعداد میں نہ ہوتے …. صوفیاء کرام نے رسول اللہ صلی اینم کی نیابت و وراثت کا حق پورا کرنے کے لیے اپنا تن ، من ، دھن سب قربان کر دیا ….. اللہ تعالیٰ نے ان کی خدمات کو شرف قبولیت عطا کیا اور انہیں کامران و کامیاب کیا…. صوفیاء کرام اور اولیاء اللہ نے رسول اللہ صلی علیم کے مشن کی پیش رفت میں کسی مخالفت، مخاصمت اور تشدد کی پرواہ نہیں کی…. انہیں بعض تنگ نظر مذہبی دانشوروں کے علاوہ سلاطین کے تشدد اور بے رخی رد اور بے رخی کا سامنا بھی کرنا پڑا…. ان شاء اللہ ! اولیاء اللہ اور صوفیاء کرام کے وارثین کی جماعت اللہ اور اللہ کے رسول صلی علیم کے توحیدی مشن کو پھیلانے میں تاقیامت عزم اورحوصلہ کے ساتھ خدمت دین میں مصروف رہے گی …. آیئے ہم دعا کریں اور سب مل کر کوشش کریں کہ ” اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ متحد ہو کر پکڑو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو کے پلیٹ فارم پر امت مسلمہ جمع ہو جائے…. امت مسلمہ کی اجتماعیت سے ہی . پوری نوع انسانی کو عقیدہ توحید پر قائم رہنے کی دعوت دے سکتے ہیں۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جولائی2019

Loading