ہوا تیز چلنے کی وجہ سے دریا میں عجیب وغریب شورمچاہوا تھا۔ہوا کی طاقت سے اُٹھنے والی لہریں ایک دوسرے سے مل کر دریا کے کنارے سے ٹکراتیں اور پھر واپس لوٹ جاتیں۔
ہاشم کی ہمت تو جواب دے گئی تھی۔اس کے باوجود اُس نے اپنے آپ پر قابو پایا اور ہمت کرکے اپنی چھوٹی کشتی میں جال سمیت داخل ہو گیا۔پہلے تو اُس نے کشتی کی صفائی کی اور کشتی کو کھول کر دریا کے بہاؤ پر چھوڑ دیا۔
بیچ دریا میں پہنچ کر اُس نے جال کو سنبھالا اور کھلے دریا میں جال کو ڈال کر کشتی میں آرام سے بیٹھ گیا۔
لہریں زیادہ ہونے کی وجہ سے کشتی کو بُری طرح سے ہچکولے آرہے تھے۔
تھوڑی ہی دیر بعد جال میں تناؤ محسوس ہوا۔ہاشم نے سمجھا کہ کوئی بڑی مچھلی جال میں پھنس گئی ہے۔وہ خوش خوش کشتی کو صحیح سمت پر کرکے جال کو آہستہ آہستہ باہر نکالنے لگا۔جال جیسے ہی باہر آیا تو اُس میں کافی تعداد میں چھوٹی بڑی مچھلیاں تھیں۔جال کو اپنی کشتی پر پھیلا کر اس میں سے مچھلیاں نکالنے لگا۔جال میں پھنسی ہوئی ایک سنہری مچھلی انسانی آواز میں بولی۔
”دیکھ ہاشم ماچھی مجھے جلدی سے نکالو نہیں تو میں مرجاؤں گی۔“
ہاشم ماچھی نے جال سے سنہری مچھلی کو نکال کر اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔
مچھلی پھر بولی․․․․․․”ہاشم میں سخت تکلیف میں ہوں۔میرادم گھٹ رہا ہے تم مجھے اور ان تمام مچھلیوں کو رہا کردو۔میں تمہیں بہت سا انعام دونگی۔“لیکن ہاشم کسی صورت بھی ان مچھلیوں کو چھوڑنے پر تیار نہ تھا۔
مچھلی روپڑی اور روتی ہوئی آواز میں بولی۔”میں اس دریائی قبیلے کی شہزادی ہوں۔میں ان مچھلیوں کے ساتھ گھومنے نکلی تھی۔لیکن غلطی سے تمہارے جال میں پھنس گئی ہوں۔میرے گھر والے بہت پریشان ہوں گے۔میں تم سے ہاتھ جوڑ کر کہتی ہوں۔تم مجھے چھوڑ دو اس کے بدلے میں تم جوکہو گے وہ میں کرنے کے لئے تیار ہوں۔“
”کیا تم میری کشتی کو سونے میں تبدیل کر سکتی ہو؟“ہاشم ماچھی سنہری مچھلی سے بولو۔
”ہاں میں کر سکتی ہوں․․․․․․․․اگر تم مجھے اور میرے تمام ساتھیوں کو رہا کردو تو میں اپنے گھر روانگی سے پہلے تمہارا یہ کام کردوں گی۔“”کیا تم سچ کہہ رہی ہو؟“سنہری مچھلی بولی۔”ہم کبھی بھی کسی کو دھوکہ نہیں دیتے تم مجھے چھوڑ کر تو دیکھو․․․․․جب سب مچھلیاں رہا ہو جائیں گی تو میں تمہارا یہ کام کرکے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اپنی دنیا میں چلی جاؤں گی۔
“
”اچھا تو پھر یہ لو سب سے پہلے میں تمہیں چھوڑرہا ہوں۔“ہاشم نے سنہری مچھلی کے بعد دوسری تمام مچھلیوں کو باری باری سمندر کے پانی میں ڈال دیا۔سنہری مچھلی نے جانے سے پہلے اپنی گردن پانی سے باہر نکالی اور ہاشم سے بولی”اب میں جارہی ہوں ۔تم اپنی کشتی کی طرف دیکھو۔وہ سونے میں تبدیل ہو چکی ہے۔“ہاشم نے جب کشتی کو دیکھا تو ہر چیز سونے کی بن چکی تھی۔
ہاشم بہت خوش تھا۔اُس نے کشتی کو کنارے سے لگا کر اس کی اچھی طرح صفائی کی اور سوچنے لگا۔اس کشتی کو فروخت کرکے اس سے جو رقم حاصل ہو گی اُس سے اپنا مکان بناؤں گا اور دوسری نئی کشتی خرید کر اس سے مچھلیوں کا کاروبار شروع کروں گا۔یہ سوچتا ہوا وہ خوش خوش اپنے گھر پہنچا اور اپنی بیوی کو یہ ساری باتیں بتائیں۔بیوی بھی سنتے ہی بے حد خوش ہو ئی۔
دوسرے روز ہاشم کی کشتی کو دیکھنے کے لئے کئی لوگ آئے جس نے سب سے زیادہ بولی لگائی کشتی اُس کے حوالے کرکے اپنی تمام رقم سمیٹ کر سیدھا گھر آگیا۔
چند ہی دنوں میں وہ امیر ترین مچھیرا بن گیا۔اب اس کے پاس خوبصورت کشتی اور اپنے رہنے کے لیے نیا مکان ،اچھے لباس سب ہی کچھ تھا۔ہاشم نے کچھ رقم بچا کر بینک میں محفوظ کرلی تاکہ مشکل وقت میں کام آئے۔
ہاشم نیک اور بے حد شریف آدمی تھا۔و ہ اپنے گاؤں کے غریب لوگوں کی خاموشی سے مدد بھی کرتا رہتاتھا۔
ہاشم کا ایک ہی بیٹا تھا جسے وہ پڑھا لکھا کر بڑا آدمی بنانا چاہتا تھا۔اُس نے اپنے بچے کو سکول میں داخل کروادیا۔وہ خوشی خوشی سکول جانے لگا۔دن گزرتے رہے ایک وقت ایسا آیا جب ہاشم ماچھی کے بیٹے نے سکول کالج اور یونیورسٹی کی تمام منزلیں طے کرکے تعلیم کو مکمل کرلیا۔
آج اس نے فوڈ سائنس میں ماسٹر کی ڈگری اعلیٰ نمبروں سے حاصل کی۔اس خوشی میں ہاشم نے ایک بہت بڑی پارٹی کا اہتمام کیا جس میں امیر غریب سب ہی اس کے مہمان بن کر آئے سبھی لوگ ہاشم ماچھی کو اُس کے بیٹے کی مبارکبادیں دے رہے تھے۔ہاشم کے بیٹے کو لوگوں نے خوشی میں بہت سے انعامات بھی دئیے۔ان لوگوں میں ایک نوجوان قاسم بھی تھا جس نے اُس کے بیٹے کو مبارک باد دی اور جاتے ہوئے ایک پیکٹ ان کے حوالے کر لے اچانک غائب ہو گیا۔
تقریب ختم ہونے کے بعد ہاشم ماچھی لوگوں کے دئیے ہوئے انعامات کو دیکھ رہا تھا تو اُس کو وہ پیکٹ بھی یاد آیا۔اس نے اُسے کھول کر دیکھا تو اس میں پھولوں کا گلدستہ اور ایک خط موجود تھا۔جس میں ہاشم کے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے پر مبارک دی تھی اور لکھا تھا کہ تمہاری سونے کی کشتی اور تمام اشیاء دریا کے کنارے پر موجود ہیں اسے موسول کرلو اور کاروبار کرویہ ہماری طرف سے آپ کے لئے انعام ہے ہاشم ماچھی آج بھی اس سوچ میں ہے کہ وہ کون تھا۔لوگ کہتے ہیں کہ ہاشم کے لئے یہ اُس کی ایمانداری کا انعام تھا۔