وہ بہت خوبصورت خواب دیکھ رہی تھی کہ اچانک اس کی کمر پر ایک زور دار لات پڑی اور وہ چیخ کر اُٹھ بیٹھی۔چچی کی آواز اس کے کانوں میں گونجی:”اُٹھ کم بخت!ابھی تک سو رہی ہے۔“فوزیہ کو کالج بھی جانا ہے،چل اُٹھ ناشتہ تیار کرکے میز پر لگا۔بے چاری سعدیہ اپنی کمر کو پکڑتے ہوئے اُٹھی اور روتی ہوئی باورچی خانے کی جانب چل پڑی۔
وہ باورچی خانے میں جا کر ناشتہ بنانے کے ساتھ ساتھ تیزی سے برتن بھی دھونے لگی۔
اب تک اس خوبصورت خواب کا منظر اس کے ذہن میں گھوم رہا تھا کہ اچانک اس کے ہاتھ سے شیشے کا گلاس گرا اور ٹوٹ گیا۔گرنے کی آواز سن کر اس کی چچی آگ بگولا ہو کر وہاں پہنچی اور تھپڑ مارنے کے ساتھ ساتھ بُرا بھلا کہتی رہیں۔
تب ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔پھر جب ان کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی تو چچی نے اس پر ظلم کرنا شروع کر دیے۔وہ اپنی چچی کی مار پیٹ سے تنگ آگئی تھی۔
ایک دن معمول کے مطابق چچی اسے باتیں سنا کر باہر گئی تھیں کہ اچانک ایک درد ناک چیخ سنائی دی۔سعدیہ سارے کام چھوڑ کر باہر آئی تو چچی کو زمین پر گرا ہوا دیکھا۔اس نے چچی کو سہارا دے کر اُٹھانے کی کوشش کی،مگر نہ اُٹھا سکی۔
اس نے جلدی سے چچی کے موبائل سے چچا کو فون کرکے بلایا اور اس کے چچا جلدی سے گاڑی لے کر گھر پہنچے اور چچی کو ہسپتال لے کر پہنچے۔
ڈاکٹروں نے کہا کہ ان کی دائیں ٹانگ بُری طرح ٹوٹ گئی ہے۔ٹھیک ہونے میں تقریباً ایک ماہ کا عرصہ لگے گا۔اس دوران ان کا بہت خیال رکھنا ہو گا۔
وہ سب گھر پہنچے تو اس وقت فوزیہ بھی کالج سے گھر آگئی تھی۔جب اس نے اپنی ماں کی یہ حالت دیکھی تو بہت پریشان ہوئی۔
سعدیہ نے اسے بتایا کہ ڈاکٹروں نے ان کا خیال رکھنے کو کہا ہے۔
فوزیہ نے کہا:”یہ سب مجھ سے تو نہیں ہو گا۔تم ہی خیال رکھا کرو۔“یہ کہتی ہوئی وہ کمرے سے باہر نکل گئی۔اب چچی کو احساس ہوا کہ فوزیہ ان کے قریب بھی نہیں آئی اور نہ کوئی کام کیا۔جس سعدیہ پر وہ اتنے ظلم کرتی تھیں۔مشکل میں وہی سعدیہ ان کے کام آئی تھی۔ایک دن چچی نے سعدیہ سے معافی مانگی۔سعدیہ نے انھیں دل سے معاف کر دیا۔چچی ایک ماہ میں بالکل ٹھیک ہو گئیں ۔اس کے بعد چچی سعدیہ سے بہت پیار کرنے لگیں اور سارے کام مل کر کرتی تھیں،بلکہ اب انھوں نے سعدیہ کی پڑھائی دوبارہ شروع کروا دی تھی۔