فنگر پرنٹس یعنی انگلیوں کی پوریں کس طرح تشکیل پاتی ہیں سائنسدانوں نے طویل عرصے بعد بالآخر اس کا پتہ لگا ہی لیا۔
دنیا میں ہر انسان کا فنگر پرنٹ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اور یہ فنگر پرنٹس اب تک کئی بڑے کیسز میں مجرموں کو پکڑوا کر کیفر کردار تک پہنچا چکے ہیں۔ سائنسدان عرصہ دراز سے اس کی تحقیق کر رہے ہیں کہ انسانی فنگر پرنٹس کیسے وجود میں آتے ہیں جس کا اب سائنسدانوں نے سراغ لگا لیا ہے۔
فنگرپرنٹس جو آپ کی انگلیوں کے سِروں پر گھومتی اور ابھری لکیریں ہیں وہ پیدائش سے پہلے ہی وجود میں آجاتی ہیں۔ یہ پوریں ہر انگلی کے تین نقطوں سے پھیلنا شروع ہوتی ہیں۔ ایک ناخن کے نیچے سے، دوسرا انگلی کے بیچ اور تیسرا انگلی کی نوک کی قریب ترین جگہ سے۔
سائنس دان جانتے تھے کہ فنگرپرنٹس جِلد کے نیچے چھوٹی چھوٹی گہرائیاں بننے سے پیدا پوتے ہیں اور یہ گہرائیاں نیچے تک چلی جاتی ہیں جن کے نچلے ترین حصے میں خلیے تیزی سے بڑھتے ہیں اور وہ بھی نیچے کی طرف بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن چند ہفتوں بعد خلیات نیچے کی طرف بڑھنا رُک جاتے ہیں۔ اس کے بجائےوہ اوپر کی طرف بڑھنا شروع کردیتے ہیں اور جلد کو اوپر کی طرف دھکیلتے ہیں جس سے جلد پر ابھری لکیریں بن جاتی ہیں۔
تاہم یہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کون سی ایسی چیز ہے جو فنگر پرنٹس کے آخری ڈیزائن کا تعین کرتی ہے۔ یہ جاننے کے لیے کہ پوروں کی نمو میں کون سے مالیکیول شامل ہو سکتے ہیں، محققین نے جلد کے ایک اور جُز کا جائزہ لیا جو جلد کے اوپر ہی نہیں بلکہ اندر نیچے کی طرف بھی بڑھتا ہے اور وہ ہے بال۔
ٹیم نے بالوں کے خلیوں کی نشوونما کا موازنہ ابھرتے ہوئے فنگر پرنٹس سے کیا اور سائنسدانوں نے اندازہ لگایا کہ ایک جیسے ہی مالیکیولز دونوں کے نیچے کی طرف بڑھنے کے لیے ذمے دار ہیں۔ دونوں میں کچھ خاص قسم کے مالیکیولز ہوتے ہیں جو خلیوں کے درمیان سگنلز کو منتقل کرتے ہیں۔
بالوں اور فنگر پرنٹس دونوں میں WNT،EDAR اورBMP نامی مالیکیولز ہوتے ہیں ۔WNT خلیات کی پیداوار کو بڑھاتا ہے جس سے جلد کو ابھرنے میں مدد ملتی ہے۔ WNT خلیوں کو EDAR پیدا کرنے کی بھی ہدایت کرتا ہے جس کے نتیجے میں WNT کی سرگرمی مزید بڑھ جاتی ہے۔
دوسری طرفBMP ان تمام کارروائیوں کو روکتا ہے۔ جہاںBMP بہت زیادہ ہوتا ہے وہاں جلد کے خلیوں کی تعمیر رُک جاتی ہے اور اس طرح زیادہ BMP والی جگہیں انگلی کے پوروں کے درمیان سطحی رہتی ہیں۔