Daily Roshni News

دماغ اور ذہن کا فرق۔۔۔ تحریر۔۔۔ نیو رو سرجن ،ڈاکٹر مظفر الدین۔۔۔قسط نمبر2

دماغ اور ذہن  کا فرق

تحریر۔۔۔ نیو رو سرجن ،ڈاکٹر مظفر الدین

(قسط نمبر2)

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔دماغ اور ذہن کا فرق۔۔۔ تحریر۔۔۔ نیو رو سرجن ،ڈاکٹر مظفر الدین ) ایجادنہیں ہوسکی ہے جو سائنسدانوں کو دماغ کے افعال کے متعلق %100 معلومات فراہم کر دے اس لئے ابھی تک دماغ کو %100 سمجھا نہیں جا سکا اور دماغ سے ماوراء ذہن اس سے بھی زیادہ پیچیدہ اور سائنسدانوں کے پانچ حواس کی گرفت سے باہر ہے اس لئے ذہن کے متعلق زیاد تر باتیں قیاس پرمشتمل ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ سائنسدانوں کے پاس کوئی ایساذریعہ   نہیں  ہے جس کے ذریعے وہ کسی فرد کے دماغ کے مرنے کے بعد اس فرد کے ذہن میں ہونے والی تحریکات کو سمجھ سکیں یہی وجہ ہے کہ سائنسدان دماغ کوئی ذہن  سمجھتے ہیں ۔ اور دماغ کی موت کو ذہن کی موت سمجھتے ہیں۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ دماغ اور ذہن ایک انتہائی پیچیده مشین ہے اس کو صرف 5 پانچ مادی حواس اور مشینوں کے ذریعے مکمل طور پر سمجھنا نا ممکن ہے۔

دماغی اور نفسیاتی بیماریاں انسانی دماغ و ذہین کے نارمل  افعال کو سمجھنے کا زریعہ ہے۔ جیسے جیسے ان بیماریوں پر ریسرچ بڑھ رہی ہے ویسے ویسے انسان اس حقیقت سے واقف ہورہا ہے کہ ہمارا دماغ اور ذہن دو مختلف چیزیں ہیں ۔ جس میں ذہن  دماغ سے کئی ہزارگنا زیادہ طاقتور ہے۔

اس سلسلے میں چند سال پہلے ایک نفسیات دان ڈاکٹر شوارزٹ نے اپنی کتاب دماغ اور ذہن میں وہم اور فالج  کے مریضوں پر کی جانے والی اپنی تحقیقات کےنتائج  میں اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ انسانی ذہن دراصل  انسانی باغ سے مختلف چیز ہے ۔ انسانی ذہن

کا اپنا ایک وجود ہے اور وہ وجود انسانی دماغ کے تابع نہیں ہے۔

یہ انسانی ذہن ہے جو دراصل انسانی دماغ کو چلاتا ہے یہاں تک کہ انسانی ذہن اپنی اپنی طاقت سے دماغ کے بیمار افعال اورنفسیاتی بیماریوں سے بھی نجات پاسکتاہے

ان کے مطابق یہ دراصل ذہن اور اسکی طاقت ہے جو ایک فرد کو دوسرے فرد سے الگ کرتی ہے البتہ وہ انسانی زبان کی انسانی دماغ کے مرنے کے بعد ہونے والی تحریکات کے بارے میں کچھ کہنے سے قاصر ہیں ۔ لیکن وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ انسانی ذہن انسان کے مرنے کے بعد بھی زندہ رہتا ہے۔

انہوں نے فالج  کے مریضوں کئی تحقیقات کیں اور مریضوں کو اس بات کی مشق کروائی کہ آپ لوگ اپنی اپنی طاقت سے اپنے فالج  زدہ دماغ کا کام لیں ، دماغ کے حصے سے لیکر اپنے ہاتھ اور پاؤں کا فالج دور کرنے کی کوشش کر یں ان کو اس مشق میں خاطر خواہ کامیابي ہوئی اور جب ان مریضوں کے ہاتھ پاؤں چلنے لگے تو انہوں نے ان مریضوں کا Pet Scan اور FMRI Scan کیا تو وہ حیران رہ گئے کہ دماغ کے فارلخ زده حصے کا پورا کام اس کے برابر میں موجود و ماغ کا دوسرا حصہ سرانجام دے رہا تھا ۔ جس کا اس کام سے بھی تعلق نہیں رہا  یعنی  ذہن کی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے اس فرد نے اپنے دماغ کے نیورونز اور انکے افعال میں تبدیلی پیدا کردی اس عمل کو Neuro Plasticity کا عمل کہتے ہیں اوردمانی سائنسدانوں کی نظر میں یہ عمل  ایک حقیقت بن چکا ہے۔

تمام مذاہب میں روح ياSpirit کا ایک تصور موجودہے ۔ عام آدمی بشمول سائنسدان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہمارے مادی جسم کو ہماری روح چلاتی ہے اور جب ہم مر جاتے ہیں تو ہماری روح اوپر کے عالمین میں منتقل ہو جاتی ہے ۔ انسانی ذہن کے بارے میں جو تصور مذہب اور مذہبی پیشوا تمام مذاہب بشمول اسلام میں دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ ذہن در اصل روح کا دماغ ہے۔ روح کا دماغ یا ذہن جسم کے دماغ کو چلاتا ہے اور جسم کے دماغ پر موت واقع ہوتی ہے تو روح کا دماغ کہیں او ر منتقل ہوجاتا ہے۔

روحانی سائنسدان حضور قلندر بابا اولیاء ؒنے اپنی کتاب لوح قلم میں شعور اور لاشعور کا ذکر فرمایا ہے۔

قلندر بابا اولیاء کے مطابق انسان شعور اور لاشعور کا مجموعہ ہے۔ شعور، لاشعور کا تابعدار جبکہ لاشعور شعور کا تابعدار نہیں ہے۔

روحانی طرزوں میں اگرسمجھاجائے تو ہمارا دماغ ہمارے شعور کا تر جمان ہے ۔ جبکہ ہمارا ذہن ہمارے لاشعور کا تر جمان ہے۔ ہمارا ذہن وسیع ہے جبکہ دماغ محدود ہے ۔ اپنے ذہن (لاشعور) کے ذریعے ہم اپنے دماغ (شعور ) کوکنٹرول کر کے بہتر زندگی گزار سکتے ہیں اس کے لئے ہمیں اپنی روحانی صلاحیتوں کو تلاش کرنا ہوگا۔

بشکریہ ماہنامہ قلندر شعوراگست2013

Loading