Daily Roshni News

میکانزم کیا ہے؟۔۔۔ تحریر۔۔۔۔الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب۔۔قسط نمبر2

میکانزم کیا ہے؟

تحریر۔۔۔۔الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب

(قسط نمبر2)

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ میکانزم کیا ہے؟۔۔۔ تحریر۔۔۔۔الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب ) رکھتا ہے۔ ہم ان پرتوں میں سے ایک پرت کو ہمزاد، ہیولیٰ ، سایہ جسم مثالی اور نسمہ (Aura) کہتے ہیں ۔ جس وقت گوشت پوست کے آدمی کو قبر میں اتا را جاتا ہے نسمہ  بھی اس کے ساتھ چپکا ہوا ہوتا ہے چونکہ باشعور، با صلاحیت اور با اختیار ہوتا ہے اس وجہ سے فرشتے ایک انتظام کے تحت اس بات کی نگرانی کرتے ہیں کہ وہ نسیمہ راہ فرار اختیار نہ کر لے ۔ بعض انسان (نسمہ) اتنے چالاک ہوتے ہیں وہ فرشتوں کو چکمہ دیکر اطراف کی حد بندیوں سے آزاد ہو جاتے ہیں ۔ اس عمل سے ان کی کوئی جائے قیا م متعین نہیں ہوتی اب وہ آوارہ اور در بدر کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں طبیعت میں شرارت کی وجہ سے لوگوں کو پریشان اور ہراساں کر کے خوش ہوتے ہیں ۔ ان کو ہمیشہ ایسے لوگوں کی تلاش ہوتی ہے جو دماغ سے کمزور ہوتے ہیں جب یہ دیکھتے ہیں کہ کسی آدمی کے نسیمہ میں قوت مدافعت نہ ہونے کے برابر ہے تو یہ اس کو اپنا معمول بنا لیتے ہیں۔ دماغی عارضہ، مالیخولیاوغیرہ بھی نسمہ میں قوت مدافعت نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں لیکن ان بیماریوں کا سایہ یا آسیب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

عرض یہ کرنا ہے کہ نوع انسانی میں نادیدہ مخلوق جنات کو بد نام کرنے کے لئے ہی ڈھونگ رچایا گیا ہے،کہ انسان کے اوپر جن سوار ہوجاتا ہے۔ انسان کے اوپر جن نہیں بلکہ خود انسان (بھٹکا ہوا نسمہ) سوار ہوتا ہے،

نوع اجنہ کے حق میں انسان کی یہ بہت بڑی زیادتی ہے او ظلم ہے کہ بغیر تحقیق و تدقیق کے پوری قوع کے اوپر بہتان تراشی کی جائے۔ میں نوع اجنہ سے واقفیت کی بنا پر یہ بات یقین کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ جنات ہم انسانوں سے زیادہ سنجیدہ ، رحم دل، ہمدرد، ایثار کرنے والے اور غم خوار ہوتے ہیں۔ جنات کے بارے میں اس ستم کی جتنی کہانیاں مشہور ہیں ان سب کا مخزن ایسے انسان ہیں جواحساس کمتری میں مبتلا ہیں ، ہوتا یہ ہے کہ جب ہم کسی مسئلے کوحل نہیں کر سکتے تو اس کے لئے قیاس کو استعمال کر کے غلط فیصلہ صادر کر دیتے ہیں۔عرف عام میں جس کو مرنا یا مردہ ہو جاتا کہتے ہیں اس کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ انسان مرنے کے بعد اپنی صلاحیتوں کو کھو بیٹھتا ہے حالانکہ ایسانہیں ہے واقعہ یہ ہے کہ انسان کی وہ صلاحیتیں جن کی وجہ سے اس کو اشرف المخلوقات کہا گیا ہے بیدار نہیں ہوتیں۔

موت بظاہر بھیا نک لیکن باطن میں اس قدر خوشنما اور حسین شے ہے جس کے اوپر ہزاروں جانیں قربان کی جاسکتی ہیں۔ انسانی زندگی میں موت ایسا عمل  ہے جس کو حاصل زندگی قرار دیا جاسکتا ہے۔ مرنے کے بعد انسان زمان و مکان کی قید و بند سے آزاد ہو کر تصور اور خیال کی رفتار سے سفر کرتا ہے اس کو نہ ہوائی جہاز کی ضرورت پیش آتی ہے اور نہ اسپیس  شپ کی ۔ اس کی دو خفیہ صلاحیتیں جو بیداری میں متحرک نہیں ہوتیں وہ سب کی سب بیدار ہو جاتی ہیں۔

اگر کسی انسان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ ایک ٹن  وزن اٹھاسکتا ہے تو وہ اس عالم آب وگل میں مہینوں اور برسوں ریاضت و مجاہدہ کر کے اس پر دسترس حاصل کرتا ہے اور اس کے لئے بھی ہر گز نہیں کہا جاسکتا کہ یہ مستقل ہے۔ اگر کوئی انسان قوت ارادی کی مشقوں پر عبور حاصل کر لینے کے بعد کسی آدمی کو متاثر کرسکتا ہے تو اس کے لئے کم و بیش تین سال کورس مقرر ہے اور یہ ضروری نہیں کہ وہ ہر آدمی کو متاثر نہیں کر سکے ۔ اگر کوئی عامل عمل وشغل کے نتیجے میں کسی فرد کو اپنا معمول بنالیتا ہے تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی کہ نوع کاہر ذی نفس اس کا معمول بن جائے گا۔ برخلاف اس کے مردہ جم( گوشت پوست کاجسم نہیں) میں یہ  صلاحیت بدرجہ  اتم موجود ہوتی ہے کہ بغیرکسی مشق اورعمل و مشغل کے کسی بھی شخص یا حیوان کو متاثر کرسکتا ہے لیکن معمول وہی حضرات بنتے ہیں جو دماغی اعتبار سے کمزور اور کندذہن  ہوتے ہیں۔

ارشادربانی ہے: ہم زندگی کو موت سے نکالتے ہیں، مفہوم بالکل صاف ہے موت اور زندگی ایک الگ شے نہیں ہے ۔ موت اور زندگی نام ہے انسانی صلاحیتوں اور اوصاف کا ایک وصف زندگی ہے۔ اور ایک وصف موت ہے ……. زندگی سے پہلے ہم جہاں بھی تھے اس کا نام موت کے علاوہ کچھ نہیں رکھا جا سکتا۔ اور اس زندگی کو گزار کر دوسری زندگی کو اپنانے کا نام بھی موت ہے۔

انسانی زندگی کا وصف جس کا نام موت ہے سب کا سب غیب ہے ۔ یہ وصف انسان کو مکانی اور زمانی قیدسے آزاد کر کے ایسی زندگی سے روشناس کرتا ہے جہاں انسان کا ارادہ حکم کی حیثیت رکھتا ہے ۔ انسان کی خواہش اگر یہ ہے کہ وہ سیب کھائے تو اس کے لئے صرف سیب کھانے کا ارادہ کر لیناہی سیب کی موجودگی کا سبب بن جاتا ہے۔ موت کی دنیا میں مظاہر وسائل کے پابند نہیں ہوتے عالم قید و بند (دنیا) میں کوئی انسان اس وقت تک سیب نہیں کھا سکتا جب تک سیب کو وجود میں لانے والے پورے وسائل بروئے کارنہ آجائیں۔

یہاں سیب کے لئے تخم ریزی سے پھل بننے تک کے پورے مراحل سے گزرنا ضروری ہے ۔ ان طویل اور تکلیف دہ مراحل کا انتظار اگر محسوس کیا جا ئے کتنا صبر آزما اور کس قدر شدید ہے ۔سیب کے حصول کے لئے ہمیں اتنا وقت گزارنا لازمی ہے جوسیب کی موجودگی کے لئے متعین ہے۔

اگر ہم کسی طریقہ سے مرنے کے بعد کی زندگی کا سراغ لگا لیں تو ہم اس زندگی میں بھی صبر آزما اور ہمت شکن انتظار سے نجات پا سکتے ہیں ۔ حضور سرور کائنات رسول اللهﷺ نے اسی زندگی کو اپنانے کےلئے فرمایا ہے موتو قبل ان تموتو مر جاؤ مرنے سے پہلے یعنی اس ہی زندگی میں موت کے بعد کی زندگی حاصل کر کے اپنے اوپر سے قید و بند کی تہہ در تہہ اور دبیز چادر کو اتار پھینکیں۔

حضور سرور کونین علیہ الصلوۃ والسلام کے اس حکم پر عمل کر نیوالے ہر زمانہ میں موجود رہتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دماغ پس پردہ مل میں آنے والے مناظر کو براہ راست دیکھتے اور سمجھتے ہیں ان کا ذہن  خیال اور تصور کے اندر بھی قدرت کے اشارے تلاش کر لیتا ہے ۔ ایسے حضرات کے اندر غیر معمولی صلاحیتیں کام کرتی ہیں ۔ اتنی غیر معمولی کہ جو چیزیں سامنے نہیں ہوتیں ان کو سامنے لے آتی ہیں۔ مرنے سے پہلے مر جانے والے لیکن اس دنیا میں موت کی زندگی سے روشناس اورمتعارف لوگ اتنی زبردست صلاحیت اور قوت کے مالک ہو جاتے ہیں کہ کائنات میں موجود ہرشے ان کے ذہن کے ساتھ حرکت کرتی ہے۔ فی الواقع کی صلاحیتیں حیرت انگیز نہیں ہیں ۔ البتہ ان کا تلاش کرنا بڑا اور بہت بڑا کارنامہ ہے۔

بات جنات سے شروع ہوئی تھی ۔ جنات، آسیب، بھوت پریت کا عقیدہ اس لئے چیستان ہے کہ ہم نے اس زندگی سے راہ فرار اختیار کررکھی ہے جو اس قسم کے تمام معموں کوحل کرتی ہے۔ یہ زندگی ( جو ہماری زندگی کا نصف حصہ ہے) لاشعوری زندگی ہے۔

بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور اگست2013

Loading