Daily Roshni News

کتاب صدائے جرس…سے اقتباس (قسط نمبر2)….تحریر۔۔۔الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی  صاحب

کتاب صدائے جرس

سے اقتباس (قسط نمبر2)

تحریر۔۔۔الشیخ خواجہ شمس الدین عظیمی  صاحب

ہالینڈ(ڈیلی روشنی انٹرنیشنل ۔۔۔انتخاب۔۔۔محمد جاوید عظیمی،نگران مراقبہ ہال ہالینڈ)  اور ان علم و عرفان کے بادلوں سے مشرق و مغرب دونوں ہی سیراب ہو گئے۔ جب مسلم قوم نے اپنا تشخص کھو دیا، اصل کردار فراموش کر دیا تو علم و آگہی کا سورج مغرب کی طرف لوٹ گیا۔ قوم کے افلاس کا یہ عالم ہے کہ علم و ہنر میں ہی نہیں، اپنی معاش میں بھی خود کفیل نہیں ہے۔ وہ قوم جو قرآن کو نافذ کرتی تھی معاشی اعتبار سے اتنی مفلوک الحال ہے کہ اس کی سوچ اور فکر پر بھی پردے پڑگئے ہیں۔ ہائے افسوس! مسلمان کے اندر سے غور و فکر کا پیٹرن (Pattern) نکل گیا ہے۔ مسلمان کو ذہنی، شعوری فکری طور پر ایسی راہ پر چلنے پر مجبور کر دیا گیا ہے جہاں فکر و تدبیر کا دم گھٹ جاتا ہے۔ ایک مخصوص طبقہ نے نا ہموار، ناکام اور نامر ادراستے پر مسلمان کو اس لئے ڈال دیا ہے کہ اس طبقہ کی اجارہ داری قائم رہے۔ صحیفہ آسمانی ہمیں زمین کے اندر بھرے ہوئے خزانوں اور سمندر کے اندر موجود دولت سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دیتا ہے، پہاڑوں کے جگر چاک کر کے ان کے ذخائر سے فائدہ اٹھانے کا درس دیتا ہے۔ مگر ہم نے خود اپنے دلوں کو زنگ آلود کر لیا ہے، کان بند کر لئے ہیں اور آنکھوں پر دبیز پردے ڈال لئے ہیں اور اس طرح وہ قوم جو تسخیر کائنات کے فارمولوں کی امین بنی تھی، تہی دست اور مفلوک الحال بن گئی ہے۔

دوسری اقوام نے جب اس صحیفہ کے اندر بیان کردہ اصولوں، قاعدوں مقداروں اور فارمولوں پر غور کیا تو وہ عزت دار بن گئے ، علم و ہنر کے میدان میں ممتاز مقام حاصل کر لیا۔ آج وہ ہواؤں میں محو پرواز ہیں، ان کے جہاز اور ان کی کشتیوں نے سمندر کے سینے کو چھلنی کر دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہواؤں پر ان کی حکمرانی ہے، دریا اور سمندر ان کے زیر اثر ہیں، زمین کے اندر خزانے ان کے تابع ہیں، ہزاروں میل دور بسنے والوں کی آواز آن واحد میں سنتا اب روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔

یہ سب اس لئے ہے کہ غیر مسلم اقوام نے صحیفہ کائنات پر غور کرنا اور کائنات میں موجود ہر شے کی تخلیق کا راز جانا اپنے اوپر لازم کر لیا ہے۔ کیوں کہ وہ تخلیقی علم سے بے گانہ نہیں ہیں، اس لئے ترقی ان کی باندی بن کررہ گئی ہے۔

آج ہر ترقی کا مخزن غیر مسلم ہیں اور محکومی اور مرعوبیت مسلمان کا امتیازی نشان بنادی گئی ہے۔ کیوں ….؟ اس لئے کہ اسلام کے نام لیواؤں اور مسلم قوم کے دانشوروں نے شعور و آگہی اور فکر پر اپنی مصلحتوں کے پہرے بٹھا دیئے ہیں۔

اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی الیکم سے فرماتا ہے:

کہہ دو کہ ملک میں چلو پھرو اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی دفعہ پیدا کیا پھر خدا ہی چھلی پیدائش کرے گا بیشک خدا ہر چیز پر قادر ہے۔ “ [ سورۂ عنکبوت (29): آیت 20] کیا یہ لوگ اونٹوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیسے ( عجیب) پیدا کئے گئے ہیں۔ اور آسمان کی طرف کیسے بلند کیا گیا ہے۔ اور پہاڑوں کی طرف کہ کس طرح کھڑے کئے گئے ہیں۔ اور زمین کی طرف کہ کس طرح بچھائی گئی ۔ تو تم نصحیت کرتے رہو کہ تم نصحیت کرنے والے ہی ہو ۔ “ (سورہ غاشیہ (88): آیت 17-21]

Loading