ہا لینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔تحریر ۔۔۔حمیرا علیم)بلوچستان کا نام سنتے ہی ذہن میں کچے گھر، بنجر زمین، ساحل سمندر، لاتعداد دلدلی علاقے آتے ہیں۔لیکن یہاں حب کی ایک مثالی تحصیل دوریجی بھی ہے۔ایک شہری مرکز کی افراتفری سے دور، بلوچستان کے ضلع حب سے سترہ میل کے فاصلے پر تحصیل دوریجی ایک جدید شہر ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ کسی ماسٹر پلان کے مطابق ترقی یافتہ ہے۔ اس میں عمدہ انفراسٹرکچر کے ساتھ ساتھ قدرتی تحفظ بھی ہے۔
دوریجی کراچی سے تین گھنٹے کی مسافت پر ہے اور وہ قصبہ جسے حب اور بیلہ کے مکین ‘منی پیرس’ اور ‘ منی اسلام آباد ‘کے نام سے پکارتے ہیں جہاں پر دلکش نظارے ہیں۔
جو چیز اس قصبے کو زیادہ پرکشش بناتی ہے وہ سخت پالیسیز ہیں جو کسی بھی ایسے شخص کو روکتی ہیں جو نایاب نسل کے جانوروں کا شکار کرنا چاہتا ہےجیسے کہ بلوچستان کی مشہور پہاڑی بکریاں ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ شکار پر پابندی کی وجہ سے ان جانوروں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے ان کی تعداد 2,000 سے بڑھ کر 20,000 تک پہنچ گئی ہے۔ اس میں ترکم بکریوں ، سندھی آئی بیکس کی خاصی تعداد شامل ہے ۔
یہ تحصیل وفاقی اور صوبائی اراکین اسمبلی کا گھر ہے اور وہ علاقے کے تمام امور کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔اس جگہ کی ترقی کا سہرا اسلم بھوتانی کے سر جاتا ہے۔جن کا کہنا ہے کہ:” میں نے دنیا کے مختلف علاقوں کو دیکھااور سوچا کہ دوریجی بھی ان سے ملتا جلتا شہر بن سکتا ہے۔ہم نے کوشش کی ہے کہ یہاں کے مکینوں کو صاف ستھرا ماحول، تفریح کا سامان اور سہولیات ملیں۔
ہم نے فنڈز کو ایمان داری سے خرچ کر کے اپنے علاقے کو بہتر بنایا ہے۔”
یہاں پانی کی قلت جیسا کوئی مسئلہ نہیں ہےکیونکہ یہاں پچاس کے قریب چھوٹے بڑے ڈیمز موجود ہیں۔یہاں کے پارکس میں فوارے اور واٹر فالز بھی ہیں۔ ایک ہیلی پیڈ اور دو فائر بریگیڈ اسٹیشنز، نادرا آفس اور پوسٹ آفس بھی ہیں۔ یہاں بجلی کی لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی کیونکہ ہر شخص بل ادا کرتا ہے۔ایک لائبریری بھی موجود ہے جہاں براڈ بینڈ اور انٹرنیٹ کی سہولت بھی موجود ہے۔ لڑکے لڑکیوں کے لیے الگ الگ اسکولز بھی ہیں۔اور ہاسپٹل کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں 24 گھنٹے ڈاکٹر اور ایمبولینس میسر ہیں۔
جہاں بلوچستان کا بیشتر علاقہ خشک اور بنجر ہے وہیں پر دوریجی میں ہر طرف سبزہ ہی سبزہ ہے۔یہاں کی سڑکیں ہموار ترین اور اسٹریٹ لائٹس سے مزین ہیں اور جگہ جگہ مختلف مقامات کی نشاندہی کے لیے بورڈز بھی نصب ہیں۔ یہ نہایت صاف شہر ہے۔
دوریجی کے لوگ اپنی بھرپور ثقافتی روایات اور رسوم و رواج کے لیے جانے جاتے ہیں۔ شہر میں بلوچی زبان بڑے پیمانے پر بولی جاتی ہے اور مقامی آبادی زیادہ تر مسلمان ہے۔ یہ شہر کئی تاریخی مقامات کا گھر بھی ہے جیسے کہ حاجی شاہ مراد مسجد اور میر گل خان ناصر کا مقبرہ، جو اس علاقے کے ثقافتی تنوع اور ورثے کی عکاسی کرتے ہیں۔دوریجی کئی سیاحتی مقامات کا گھر ہے جو سیاحوں کوشہر کی تاریخ اور قدرتی خوبصورتی کی ایک جھلک پیش کرتے ہیں جن میں دوریجی قلعہ، بازار، اور مینگرووز وائلڈ لائف سینکچری شامل ہیں۔
سیاح قریبی پہاڑوں اور صحراؤں میں پیدل سفر، کیمپنگ اور پرندوں کو دیکھنے جیسی سرگرمیوں میں بھی مشغول ہو سکتے ہیں۔دوریجی کا کھانا علاقائی اور روایتی پکوانوں کا امتزاج ہے۔ جن میں سجی ، بلوچی پلاؤ، حلوہ پوری اورلسی شامل ہیں۔یہاں سیاحوں کے لیے ہوٹلز، گیسٹ ہاؤسز اور کیمپ سائٹس موجودہیں۔ شہر کے کچھ سرفہرست ہوٹلوں میں بلوچستان ہوٹل اور دوریجی گیسٹ ہاؤس شامل ہیں۔ اس کے علاوہ سیاح قریبی پہاڑوں اور صحراؤں میں روایتی مٹی کے گھروں یا خیموں میں بھی قیام کر سکتے ہیں۔دوریجی میں سیاحت کے لیے ٹیکسیز یا کرایہ پر کاریں لی جا سکتی بسز اور ٹرینز بھی موجود ہیں ۔
دورجی ایک منفرد اور دلفریب شہر ہے جو سیاحوں کو پاکستان کے بھرپور ثقافتی ورثے اور قدرتی حسن کی جھلک پیش کرتا ہے۔ چاہے آپ تاریخ، ثقافت یا فطرت میں دلچسپی رکھتے ہوں دورجی کے پاس ہر ایک کے لیے کچھ نہ کچھ پیش کرنے کے لیے ہے۔
اگر بلوچستان کے ایک دوردراز علاقے کو ان سہولیات سے مزین کیا جا سکتا ہے تو پورے پاکستان کو کیوں نہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلم بھوتانی جیسے مخلص لوگ حکومتی پیسے کو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کریں۔