ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔تحریر۔۔۔حمیرا علیم)کائٹ فلائنگ ایسوسی ایشن راولپنڈی کے مطابق راولپنڈی میں نو فروری کو بسنت منائی جائے گی۔ چند سال پہلے بسنت کے تہوار پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔لیکن یہ پابندی بھی دوسری تمام پابندیوں کی طرح کی تھی۔جس میں پولیس چند مقامات پر خلاف ورزی کرنے والوں کو پکڑ کر تصاویر بنواتی ہے اور بقول شخصے گونگلواں تو مٹی چاڑ کے اپنا فرض پورا کر لیتی ہے۔میرا خیال ہے کہ کسی بھی چیز پر پابندی لگانے سے پہلے اگر اس پابندی کی وجہ بتا دی جائے تو شاید عوام اس کی مخالفت نہ کریں۔چنانچہ علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو بسنت کی تاریخ بتا کر ان میں شعور اجاگر کریں۔
ویکیپیڈیا کے مطابق بسنت یاپنچمی موسم بہار میں منائے جانے والا بنیادی طور پر ہندوں کا ایک تہوار ہے۔ سنسکرت میں بسنت کا معنی بہار ہے۔یہ پانچویں ہندو مہینہ ماگھ کی 5 تاریخ کو ہوتا ہے اور ویدوں میں اس کا تعلق سرسوتی دیوی سے بتایا جاتا ہے جو ہندو مت میں موسیقی اور فن کی دیوی سمجھی جاتی ہے۔ میں آتا ہے۔ ویدوں میں لکھا ہے کہ یہ سرسوتی دیوی کا دن ہے۔ اس دن خوشی منائی جاتی ہے اور سرسوتی دیوی کی پوجا کی جاتی ہے۔ خوشی کے اظہار کے لیے نئے کپڑے پہنے جاتے ہیں اور پتنگیں اڑائی جاتی ہیں اور موسیقی سے لطف اندوز ہوا جاتا ہے۔ ہندوستان کے دیگر مذاہب کے افراد بھی اب یہ تہوار ثقافت کی آڑ میں مناتے ہیں۔
اور اس کی تاویل یہ دیتے ہیں کہ سردیوں کا موسم ختم ہو رہا ہوتا ہے لوگ جو موسم کی شدت کی وجہ سے گھروں میں بند تھے۔ درجہ حرارت مناسب ہونے پر گھروں سے باہر آتے ہیں اور خزاں اور سرما کی بے رنگی اور بدمزگی جو ان کے مزاج اور آنکھوں پر چھائی ہوئی ہے اسے باہر آکر تیز رنگوں والے کپڑے پہن کر باہر گھوم پھر کر یا پتنگ بازی کر کے طبیعت کے اس زنگ کو اتارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شوق کا زیادہ اظہار پتنگ بازی کی شکل میں نکلتا ہے۔ سپاٹ آسمان اچانک رنگوں سے سج جاتا ہے۔ فطرت انگڑائیاں لیتی ہے اور ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ خاکی رنگ کی زمین سرسوں کے پیلے اور ہرے رنگ کی وجہ سے رنگین ہو جاتی ہے۔ بہار کے دوسرے پھول اور پرندوں کی چہچہاہٹ خوشیوں کے پیغام لاتی ہیں کہ یہ بسنت ہے یہ جشن بہاراں ہے۔ فطرت کے اس رنگوں بھرے اور خوشیوں بھرے جشن میں انسان بھی شریک ہو جاتے ہیں۔ یہ لوگ وہ تمام کام کرتے ہیں جو اہل ہنود کرتے ہیں سوائے سرسوتی دیوی کی پوجا کے۔ جبکہ بسنت کے مخالفین کے مطابق اس تہوار کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے ایک شخص سے جوڑتے ہیں جس کا ذکر ایک ہندو مؤرخ نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔
اس مکتب فکر کے مطابق بسنت ہندوؤں اور سکھوں کا مشترکہ تہوار ہے۔ ایک ہندو مؤرخ بی ایس نجار نے اپنی کتاب “Punjab under the later Mughals” میں لکھا ہے کہ
“حقیقت رائے باگھ مل پوری سیالکوٹ کے ایک ہندو کھتری کا اکلوتا لڑکا تھا۔ حقیقت رائے نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شان میں انتہائی گستاخانہ اور نازیبا الفاظ استعمال کیے۔ اس جرم پر حقیقت رائے کو گرفتار کرکے عدالتی کارروائی کے لیے لاہور بھیجا گیا جہاں اسے سزائے موت کا حکم سنادیا گیا۔ اس واقعے سے پنجاب کے ہندوؤں کو شدید دھچکا لگا اور کچھ ہندو افسر سفارش کے لیے اُس وقت کے پنجاب کے گورنر ذکریا خان (1707ء تا 1759ء) کے پاس گئے کہ حقیقت رائے کو معاف کر دیا جائے لیکن ذکریا خان نے کوئی سفارش نہ سنی اور سزائے موت کے حکم پر نظر ثانی کرنے سے انکار کر دیا۔ لہٰذا اس گستاخ رسول کی گردن اڑادی گئی۔ اس پر ہندوؤں میں صف ماتم بچھ گئی۔ ہندوؤں نے حقیقت رائے کی ایک مڑہی (یادگار) قائم کی جو کوٹ خواجہ سعید (کھوجے شاہی) لاہور میں واقع ہے اور اب یہ جگہ “باوے دی مڑہی” کے نام سے مشہور ہے۔جس دن حقیقت رائے کو پھانسی ہوئی اس دن شہر میں بسنت تھی۔ اس سے اگلے سال ایک مقامی ہندو رئیس کالو رام کی سرگردگی میں یہاں تمام ہندو اکھٹے ہوئے، انہوں نے پتنگیں اڑائی اور ڈھول بجائے۔ ”
یہ مکتب فکر بسنت کو ایک موسمی نہیں بلکہ مذہبی تہوار سمجھتا ہے چونکہ اس کا ذکر پرانی ہندو مذہبی کتب میں آتا ہے۔ پرانی کتابوں کے مطابق پتنگ پر دو آنکھیں یا دوسرے شکلیں بنا کر آسمان سے نازل ہونے والی بلائیں دور کی جاتی ہیں۔ یہ خیالات جنوب مشرقی ایشیا کے کچھ ممالک میں بھی پائے جاتے ہیں جیسے سنگاپور، تھائی لینڈ وغیرہ۔
بسنت پر دوسرا بڑا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ بسنت منانے کے نتیجے میں بے شمار قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں جس کی وجہ پتنگ کی ڈور کا گلے پر پھر جانا ہے۔ کچھ بچے پتنگ بازی کرتے ہوئے چھت سے بھی گر جاتے ہیں اور کچھ ان گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں جو پتنگ باز چلاتے ہیں۔ انہی وجوہات کی بنا پر ہر سال بسنت کے موقع پر پاکستانی عدالتوں میں اس تہوار کے خلاف مقدمات درج کیے جاتے ہیں اور کبھی کبھار تو پتنگ بازی پر پابندی بھی لگا دی جاتی ہے۔
علماء کے مطابق اگر روایت یا تہوار ایک ‘مذہبی تقریب’ ہے جو کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھتا ہے یا اس کی نمائندگی کرتا ہے جب کہ اسلام میں روایت جائز نہیں ہے۔ تو اس روایت کو جان بوجھ کر اس پر عمل کرنا اور اسے جائز سمجھنا کفر کے قریب ہوگا۔ اس کی مباحیت کے علم میں رہتے ہوئے اس کی پیروی کرنا کم از کم انتہائی حرام اور گناہ ہے۔ لیکن بعض علماء نے کہا ہے کہ یہ تب بھی کفر ہے جب اس میں ایسی روایت کو برقرار رکھا جائے جو جھوٹے دیوتاؤں کی تعریف کرتی ہو۔ اور مثال ہندوؤں کا تییاترا کا سالانہ تہوار ہے۔
- اگر یہ کوئی ایسی روایت یا تہوار ہے جو مذہبی نہیں ہے لیکن اس کے ساتھ شراب نوشی، موسیقی یا جنسی ملاپ جیسی گناہ کی سرگرمیاں شامل ہیں تو ان میں شرکت کرنا بھی ناجائز اور گناہ ہے۔
- اگر یہ ایک عام روایت ہے جس میں کوئی چیز ممنوع نہیں ہے اور وہ اسلام کے عقائد کے خلاف نہیں ہے تو یہ انتہائی ناپسندیدہ اور دوسری صورت میں جائز ہے۔ تاہم اس میں نہ ثواب ہے نہ گناہ۔
تو بسنت کا کیا ہوگا؟
تہوار بسنت (پتنگ بازی) کی صورت میں جسے دوسری صورت میں اتران کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جو روایتی طور پر برصغیر پاک و ہند میں رائج ہے۔ اس تہوار میں حصہ لینا مندرجہ ذیل وجوہات کی بناء پر جائز نہیں ہے۔
بسنت کا تہوار اگرچہ براہ راست ہندو مذہب سے تعلق نہیں رکھتا ہے اب ہندوستان میں مشرک اس تہوار کے دوران مورتی پوجا کرتے ہیں۔ وہ عام طور پر اپنے جھوٹے دیوتا شیو کی پوجا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور اس تہوار کو مورتی پوجا منانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے ‘تم جس کی پیروی کرو گے اس کے ساتھ ہو گے’ (ترمذی) اس صورت میں لاگو ہوگا۔
ہندوستانی اسکالر اور فقیہ شیخ احمد ردا خان نے وضاحت کی۔
تہوار بغیر کسی جسمانی یا ذہنی فائدہ کے وقت اور پیسے کا غیر ضروری ضیاع ہے۔ اس سرگرمی میں حصہ لینے سے سینکڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں اور بے شمار وقت ضائع ہوتا ہے۔ بلا وجہ وقت اور پیسہ ضائع کرنا بھی جائز نہیں۔
اس تہوار میں حصہ لینے کے دوران ہر سال بہت سی اموات ہوتی ہیں، کیونکہ بچے چھتوں پر جاتے ہیں اور اپنی حفاظت پر توجہ نہیں دیتے اور اسی وجہ سے بہت سے بچے مر جاتے ہیں یا زخمی ہو جاتے ہیں۔
(فتاویٰ رضویہ)
محقق ‘محمود الحسن خان’ کا ایک اقتباس (اگرچہ میلے کو فروغ دے رہا ہے) لکھتے ہیں؛
لیکن اس طرح کے خوشی کے تہوار کا بھی ایک تاریک پہلو ہوتا ہے کیونکہ ہسپتال ہمیشہ پتنگ بازوں سے بھرے ہوتے ہیں جو چھتوں سے گر جاتے ہیں اور وہ بچے جو سڑکوں پر بھاگتے ہوئے گاڑیوں کی زد میں آتے ہیں، ان کے چہرے پتنگیں دیکھنے کے لیے آسمان کی طرف ہوتے ہیں۔ شہر تاریکی میں ڈوب جاتے ہیں جب استرا کی تیز پتنگ کی ڈوریاں پاؤڈر شیشے میں لپٹی ہوئی ہوتی ہیں یا سٹیل کی کٹی ہوئی بجلی کی تاروں سے بنی ہوتی ہیں۔ بہت سے نادان لوگ زیادہ سے زیادہ پتنگیں لوٹنے کے لیے غیر قانونی تانبے، نائلون دھاگے اور ٹنڈی کا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن چند لوگوں کی یہ بیہودہ حرکت قومی دولت کو نقصان پہنچا رہی ہے اور بجلی کے پاور سسٹم کو تباہ کر رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اگر ایک گھنٹے میں 50 بریک ڈاؤن ہوتے ہیں تو اس کی لاگت واپڈا کو 2.5 ملین روپے لگتی ہے ۔اسٹیل اور شیشے والی تاروں پر پابندی ہے لیکن مینوفیکچررز پھر بھی تجارت کرتے ہیں ۔
بچوں کے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کا خاص خیال رکھیں اور بسنت کے جوش و خروش کو کسی جان و مال کے نقصان کے بغیر بانٹنے کے لیے ہر ممکن اقدام کریں۔ موٹرسائیکل سوار اور سڑک پر سفر کرنے والے معصوم لوگ احتیاط کریں تاکہ ڈور کی شکل میں ان دیکھی موت سے بچ سکیں۔
واللہ اعلم