Daily Roshni News

آج کی اچھی بات…تحریر۔۔۔حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب… (قسط نمبر2 )…بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور اکتوبر2023

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ آج کی اچھی بات۔۔۔ تحریر۔۔۔حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب)نشیب و فراز کے ذریعے آواز باہر آتی ہے۔ یہ ایک ہی سانس ہے جس کے مدوجزر سےطرح طرح کی آوازیں ظاہر ہو رہی ہیں۔

آواز کیا ہے؟ آواز ساز ہے۔ اس کا اتار چڑھاؤ خوش آئند ہے اور دل میں گداز بھی پیدا کرتا ہے جس سے آنکھیں ہنستی ہیں اور بارش کے قطروں کی طرح برستی بھی ہیں۔ اللہ تعالی کی تخلیقات ہر طرح سے مکمل ہیں۔ تفکر، سوچ اور عقل مطالبہ کرتی ہے کہ آواز کیا ہے؟ بانسری کی آواز، کویل کی آواز ، چڑیوں کی چہکار، پتوں کا سرسرانا، ہوا کی آواز کا مد و جزر، سمندروں کی موجوں میں تلاطم ، لہروں کا ایک دوسرے سے بغل گیر ہونا اور نا کامی کے سراب میں لہروں کا منتشر ہونا سب ساز و آواز ہیں۔ آواز کی base کن ہے۔ گن میں گونجار ہے اور گونجار مخلوقات کی تخلیق کا فارمولا ہے۔

روحانی سلسلہ ایک قافلہ ہے۔ قافلے میں سینکڑوں یا ہزاروں افراد ہو سکتے ہیں لیکن سالار قافلہ ایک ہوتا ہے۔ جو راستہ وہ اختیار کرتا ہے ، اس پر پورا قافلہ چلتا ہے۔ اس طرح قافلہ سالار کی راہ نمائی میں سیکھائی پروگرام پر متحرک ہوتا ہے۔ قافلے میں شریک لوگ جب تک سالار قافلہ کے ذہن کے تابع ہوتے ہیں، قافلے کا حصہ ہوتے ہیں۔ اگر ذہن ادھر اُدھر ہو جائے پھر وہ منزل رسیدہ نہیں ہوتے بلکہ منزل کھونے والے ہو جاتے ہیں۔

سالار قافلہ کو صوفی، استاد، ٹیچر ، گرو اور مرشد بھی کہتے ہیں۔

صوفی سوچتا ہے کہ زندگی کیا ہے اور انتقال مکانی کیا ہے؟ تاریخ کے صفحات پر جو روحانی تحریر لکھی ہوئی ہے، وہ یہ ہے کہ شے شعور کے پر دے سے غائب ہوتی ہے اور دوسرے شعور یعنی لاشعور میں منتقل ہوتی ہے۔ صوفی جب تخلیقات پر غور کرتا ہے تو لا محالہ ذہن اس نقطہ پر ٹھہر جاتا ہے کہ زندگی دراصل خالق کا تعارف ہے۔ یہ تعارف ایسا فارمولا ہے جو ہر تخلیق میں نمایاں ہے اور اس سے واقف ہونے کے لئے خالق کا ئنات اللہ نے آدمی کو تقریباً 12 کھرب صلاحیتیں عطا کی ہیں۔ اللہ کے عطا کردہ علم اور خاتم النبیین حضرت محمدؐ کی نسبت سے، صوفی بارہ کھرب میں سے اتنی صلاحیتوں سے واقف ہوتا ہے جن سے عام لوگ واقف نہیں۔

عزیز دوستو! مشکور ہوں کہ آپ نے ” آج کی بات“ کا مطالعہ کیا۔ اب خلاصہ پڑھئے۔ آدمی گونگا بہرا ہیولا ہے۔ اس کی حیثیت بانسری کے خول کی ہے۔ جب تک بانسری میں پھونک داخل نہ ہو، یہ لکڑی کا ٹکڑا ہے۔ بانسری کی طرح جب آدمی اندر میں بارہ

کھرب صلاحیتوں سے واقف نہیں ہوتا تو اس کی حیثیت مٹی کے لباس کی ہے۔ بانس سے بانسری بننے کا سفر آسان نہیں۔ بانس اس وقت تک بانسری نہیں بنتا جب تک چوٹ نہ کھائے اور داغ دار نہ ہو ۔ وہ خود کو مرشد کے سپرد کر کے ہر ضرب کو خوشی سے قبول کرتا ہے تو ایسی بانسری بن جاتا ہے جس سے بکھرنے والے سر اندر میں وصال و فراق کا تلاطم پیدا کر دیتے ہیں۔ جس طرح لکڑی کا ٹکڑا بانسری بن کر اور بانسری ماہر استاد کے ہاتھ میں آکر اپنی صلاحیتوں سے واقف ہوتی ہے، اسی طرح آدمی یعنی سالک جب مرشد کے نقش قدم پر چلتا ہے تو مرشد اس کی بانسری میں وہ ساز پھونکتا ہے جس سے سالک اندر میں صلاحیتوں سے متعارف ہو کر زندگی کے ساز سے ہم آواز ہو جاتا ہے۔

شاعر نے کہا،

زندگی کا ساز بھی کیا ساز ہے

بج رہا ہے اور بے آواز ہے

بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور اکتوبر2023

Loading