Daily Roshni News

آج کی بات۔۔۔ تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب

آج کی بات

اللہ کا رنگ

تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔آج کی بات۔۔۔ تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب)ابدال حق حضور قلندربابا اولیا کے 44 ویں عرس کے موقع پر محترم عظیمی صاحب کا خطاب بسم الله الرحمن الرحيم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، بہت عزیز دوستو، نہایت مخلص بزرگو، پیارے بچو ۔ آپ کے اندر اللہ تعالی نے اپنی صفات کو تلاش کرنے کا جذبہ عطا فرمایا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ ہم سب آدم و حوا کی اولاد ہیں۔ غور و فکر کرتے ہیں تو آدم و حوا اللہ کی بہترین تخلیق ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے آدم و حوا کو جنت میں بہترین مقام عطا فرمایا لیکن ساتھ ہی تاکید کی کہ پھول پتیوں میں اور جنت کے نقشوں میں ہر چیز تمہارے لئے ہے مگر اس میں تمام اچھی چیزیں، اچھی باتیں، اچھی مخلوق کے ساتھ ایک پابندی ہے اور وہ پابندی یہ ہے کہ ہزاروں لاکھوں درختوں کے ہجوم میں ایک درخت ایسا ہے جس کے قریب نہیں جانا اور نہ کھوج

لگانا ہے کہ اس درخت کا میکانزم کیا ہے۔

یہ سمجھئے کہ جنت میں شماریات سے زیادہ درختوں کی موجودگی میں ایک درخت ایسا ہے جو ہمہ وقت رنگ تبدیل کرتا ہے۔ ابھی وہ نیلا ہے ، تھوڑی دیر میں زرد پھر سبز اور سرخ ہے۔ آدم سے سہو ہوا ، وہ اس درخت کے قریب چلے گئے اور رنگ کی مسلسل تبدیلی کو دیکھا تو ہر رنگ میں ایک نئی تکنیک دیکھی۔ آدم کے ذہن میں آیا کہ یہ رنگ سرخ ہے، بہت خوب صورت، شفاف، چمک دار سرخ رنگ ، اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ رنگ تبدیل ہو گیا۔ سرخ سے نیلا ہو گیا اور نیلا رنگ سرخ رنگ سے زیادہ دل زیب تھا۔

آدم نے غور کیا کہ یہ تو سرخ سے زیادہ خوب صورت ہے۔ غور و فکر کر رہے تھے کہ یہ رنگ کیا ہے ، رنگ تبدیل ہو گیا۔ قصہ کوتاہ اس کی شاخوں، پتوں، پھول اور ساخت میں رنگوں کی مسلسل تبدیلی دیکھ کر آدم کے اندر میں خیال آیا کہ یہ رنگ سرخ ہے۔ اب جب سرخ سے نیلا ہوا تو کہا کہ یہ نیلا ہے یعنی ان کے اندر شک پیدا ہو گیا کہ یہ رنگ نیلا ہے۔

اتنی دیر میں وہ سبز ہو گیا۔ غور کیجئے۔

اللہ تعالیٰ نے جنت بنائی۔ خوب صورتی کے لئے اس کے اندر لا شمار پھول لگائے، درخت بنائے۔ ایک درخت کے بارے میں فرمایا کہ اس کے قریب نہیں جانا اور اس پر غور و فکر نہ کرنا۔ پھر کیا ہوا؟ ہوا یہ کہ سرخ رنگ ہزاروں لاکھوں رنگوں میں تبدیل ہو گیا۔ ہزاروں رنگوں میں تبدیل ہونے کا مطلب ہے کہ کسی ایک رنگ پر یقین نہیں رہا۔ جتنے رنگ تھے ، ان میں illusion ( فریب نظر ) ہو گیا یعنی ۔ یقین کی جگہ شک پیدا ہوا، بے یقینی پیدا ہوگئی۔ کبھی وہ کہتے تھے کہ سرخ ہے، کبھی کہتے تھے کہ نیلا ہے۔ جب دیکھا

نیلا ہے تو نیلا کہہ دیا اور نیلے کو نیلا ہی سمجھا۔

رنگوں میں مسلسل تبدیلی ہوتی رہی تو سرخ رنگ کا یقین بے شمار رنگوں میں تقسیم ہوتا رہا۔ بے شمار رنگوں میں تقسیم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یقین بے یقین بن گیا۔ ذہن یکسو نہیں رہا کہ یہ رنگ کون سا ہے اور یہ بھی یقین نہیں رہا کہ یہ رنگ سرخ نہیں ہے ، نیلا

ہے، نیلا نہیں ہے ، بینگنی ہے۔

سوچنا یہ ہے کہ جنت کے لاشمار درختوں میں ایک درخت ایسا ہے جس پر غور و فکر کرنے سے شک پیدا ہو گیا۔ کبھی کہتے ہیں نیلا ہے ، کبھی کہتے ہیں سرا سرخ ہے، کبھی کبھی سمجھتے ہیں

کوئی اور رنگ ہے۔ آپ اس بات سے کیا سمجھے ؟ مطلب یہ ہوا کہ یقین بے یقینی میں تبدیل ہو گیا۔ یقین پر بے یقین ہونے کا پردہ

[7:07 PM, 12/30/2023] My Zong: آدم نے غور کیا کہ یہ تو سرخ سے زیادہ خوب صورت ہے۔ غور و فکر کر رہے تھے کہ یہ رنگ کیا ہے ، رنگ تبدیل ہو گیا۔ قصہ کوتاہ اس کی شاخوں، پتوں، پھول اور ساخت میں رنگوں کی مسلسل تبدیلی دیکھ کر آدم کے اندر میں خیال آیا کہ یہ رنگ سرخ ہے۔ اب جب سرخ سے نیلا ہوا تو کہا کہ یہ نیلا ہے یعنی ان کے اندر شک پیدا ہو گیا کہ یہ رنگ نیلا ہے۔

اتنی دیر میں وہ سبز ہو گیا۔ غور کیجئے۔

اللہ تعالیٰ نے جنت بنائی۔ خوب صورتی کے لئے اس کے اندر لا شمار پھول لگائے، درخت بنائے۔ ایک درخت کے بارے میں فرمایا کہ اس کے قریب نہیں جانا اور اس پر غور و فکر نہ کرنا۔ پھر کیا ہوا؟ ہوا یہ کہ سرخ رنگ ہزاروں لاکھوں رنگوں میں تبدیل ہو گیا۔ ہزاروں رنگوں میں تبدیل ہونے کا مطلب ہے کہ کسی ایک رنگ پر یقین نہیں رہا۔ جتنے رنگ تھے ، ان میں illusion ( فریب نظر ) ہو گیا یعنی ۔ یقین کی جگہ شک پیدا ہوا، بے یقینی پیدا ہوگئی۔ کبھی وہ کہتے تھے کہ سرخ ہے، کبھی کہتے تھے کہ نیلا ہے۔ جب دیکھا

نیلا ہے تو نیلا کہہ دیا اور نیلے کو نیلا ہی سمجھا۔

رنگوں میں مسلسل تبدیلی ہوتی رہی تو سرخ رنگ کا یقین بے شمار رنگوں میں تقسیم ہوتا رہا۔ بے شمار رنگوں میں تقسیم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یقین بے یقین بن گیا۔ ذہن یکسو نہیں رہا کہ یہ رنگ کون سا ہے اور یہ بھی یقین نہیں رہا کہ یہ رنگ سرخ نہیں ہے ، نیلا

ہے، نیلا نہیں ہے ، بینگنی ہے۔

سوچنا یہ ہے کہ جنت کے لاشمار درختوں میں ایک درخت ایسا ہے جس پر غور و فکر کرنے سے شک پیدا ہو گیا۔ کبھی کہتے ہیں نیلا ہے ، کبھی کہتے ہیں سرا سرخ ہے، کبھی کبھی سمجھتے ہیں

کوئی اور رنگ ہے۔ آپ اس بات سے کیا سمجھے ؟ مطلب یہ ہوا کہ یقین بے یقینی میں تبدیل ہو گیا۔ یقین پر بے یقین ہونے کا پردہ

[7:08 PM, 12/30/2023] My Zong: آگیا۔ ابھی کہا یہ سرخ ہے ، نہیں نہیں! یہ تو نیلا ہے۔ کیا مطلب ہوا؟ شک پیدا ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سورۃ البقرۃ کی دوسری آیت میں فرمایا ہے،

ذلك الكتب – یہ کتاب یعنی قرآن پاک

لا معنی نہیں، ریب معنی شک، فیه اس میں

لا ريب فيه اس میں شک نہیں ہے۔

جب آدم درخت کے قریب گئے اور نیلے رنگ کو سرخ دیکھا تو شک پیدا ہوا اور رنگ کی مسلسل تبدیلی کی بنا پر شک بڑھتے بڑھتے جو کچھ جنت کی فضا میں اللہ تعالیٰ کے انعامات و

اکرامات موجود ہیں، ان کے اوپر پردہ آگیا۔

جنت میں شک نہیں ہے۔ جب درخت کی رنگینی اور اس رنگینی کو مسلسل تبدیل ہوتے دیکھا تو ذہن میں کیا آیا؟ ایک جگہ دس رنگ ہیں۔ دس رنگ الگ الگ تبدیل ہو رہے ہیں، آپ اس کو کیا کہیں گے ۔ ؟ رنگ تبدیل ہو رہے ہیں۔ رنگ تبدیل ہو گئے تو اس کا

مطلب ہے کہ رنگ کی انفرادیت سوالیہ نشان بن گئی۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ رنگوں میں سب سے اچھا رنگ اللہ کا ہے۔

پہلی بات جو ذہن میں آئی، وہ کیا ہے؟ دیوار پر سرخ رنگ ہے پھر نیلا ہو گیا، نیلے کے اوپر سبز ہو گیا تو کیا تبدیلی واقع ہوئی؟ سفید کے اوپر سرخ کر دیا، سرخ کے اوپر نیلا کر دیا، نیلے کے اوپر سبز کر دیا، رنگ تو سب موجود ہیں لیکن اصل رنگ کہاں گیا؟ سوچئے ۔ اصل رنگ کہاں گیا ؟ سیدھی سی بات ہے، سفید رنگ کے اوپر آپ نے کالا کر دیا، سفید چھپ گیا، کالا غالب ہو گیا۔ پھر کوئی اور رنگ کر دیا ، وہ غالب ہو گیا اور کالا

چھپ گیا یعنی یقین کی دنیا میں ؟ جو اصلی رنگ تھا، وہ پر دے میں چلا گیا۔

جب سفید رنگ چھپ گیا تو آپ کسی رنگ کے ہیں۔؟

Loading