آج کی اچھی بات
قلندر بابا اولیاؒ
تحریر۔۔۔حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب
(قسط نمبر2)
بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور جنوری2023
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ آج کی اچھی بات۔۔۔ تحریر۔۔۔حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب)
الف) ایک انسان کیا ہے ؟ ہم اس کو کس طرح پہچانتے ہیں اور کیا سمجھتے ہیں ؟
ہمارے سامنے ایک مجسمہ ہے جو گوشت پوست سے مرتب ہے۔ طبی نقطہ نظر سے ہڈیوں کے ڈھانچے پر رگ پٹھوں کی بناوٹ کو ایک جسم کی شکل وصورت دی گئی ہے۔ ہم اس کا نام جسم رکھتے ہیں اور اس کو اصل سمجھتے ہیں۔ اس کی حفاظت کے لئے ایک چیز اختراع کی گئی ہے جس کا نام لباس ہے۔ یہ لباس سوتی کپڑے کا، اونی کپڑے کا یا کسی کھال وغیرہ کا ہوا کرتا ہے۔ اس لباس کا محلِ استعمال صرف گوشت پوست کے جسم کی حفاظت ہے۔ فی الحقیقت اس لباس میں اپنی کوئی زندگی یا اپنی کوئی حرکت نہیں ہوتی۔ جب یہ لباس جسم پر ہوتا ہے تو جسم کے ساتھ حرکت کرتا ہے یعنی اس کی حرکت جسم سے منتقل ہو کراس کو ملی لیکن در حقیقت وہ جسم کے اعضا کی حرکت ہے۔
جب ہم ہاتھ اٹھاتے ہیں تو آستین بھی گوشت پوست کے ہاتھ کے ساتھ حرکت کرتی ہے۔ یہ آستین اس لباس کا ہاتھ ہے جو لباس جسم کی حفاظت کے لئے استعمال ہوا ہے۔ اس
تشریح : حرکت کیا ہے ؟ آدمی لائٹ (روح) ہے اور لائٹ کہیں سے آرہی ہے۔ اگر لائٹ کاآنا موقوف ہو جائے تو ایک ہزار بلب اندھیرے میں تبدیل ہو جائیں گے یعنی روشنی نہیں ہو گی۔ اسی طرح اگر آدمی کے اندر زندگی کے یونٹ منقطع ہو جائیں تو پھر جسم ڈیڈ باڈی ہو جائے گا۔ جس طرح بجلی نہ ہونے سے بلب بے جان ہیں یعنی کرنٹ کی رو اس نظام سے قطع تعلق کر لیتی ہے۔
قارئین ! زندگی کیا ہے؟ کرنٹ ہے۔ کرنٹ کی ترسیل کیسے ہو رہی ہے۔؟
تار در تار ایک دوسرے سے مل کر کرنٹ کی ترسیل کو جاری رکھتے ہیں۔ سوچئے ، تفکر کیجئے۔ گھر میں بجلی کی ترسیل کے نظام کو دیکھئے۔ رگوں کے جال کے ایک دوسرے سے تعلق قائم ہونے پر تفکر کیجئے تو اس کی ذات جنز میٹر ہے۔ آدمی کے اندر روشنی کا اصل نام نور ہے جو مادی دنیا میں روشنی کےسلام سے متعارف ہے۔
لباس کی تعریف کی جائے تو یہ کہا جائے گا کہ جب یہ لباس جسم پر ہے تو جسم کی حرکت اس کی کے اندر منتقل ہو جاتی ہے اور اگر اس لباس کو اتار کر چار پائی پر ڈال دیا جائے یا کھونٹی پر لڑکا دیا جائے تو اس کی تمام حرکتیں ساقط ہو جاتی ہیں۔
اب ہم اس لباس کا جسم کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں۔ اس کی کتنی ہی مثالیں ہو سکتی ہیں۔ یہاں صرف ایک مثال دے کر صحیح مفہوم ذہن نشیں ہو سکتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ آدمی مر گیا۔ مرنے کے بعد اس کے جسم کو کاٹ ڈالئے ، ٹکڑے کر دیجئے، گھیٹے، کچھ کیجئے۔ جسم کی اپنی طرف سے کوئی مدافعت، کوئی حرکت عمل میں نہیں آئے گی۔ اس مردہ جسم کو ایک طرف ڈال دیجئے تو اس میں زندگی کا کوئی شائبہ کسی لمحہ بھی پیدا ہونے کا کوئی امکان
نہیں ہے۔ اس کو جس طرح ڈال دیا جائے گا، پڑا رہے گا۔ اس کے معنیٰ یہ ہوئے کہ مرنے کے بعد جسم کی حیثیت صرف لباس کی رہ جاتی ہے۔ اصل انسان اس میں موجود نہیں رہتا۔ وہ اس لباس کو چھوڑ کر کہیں چلا جاتا ہے۔ جب مشاہدات اور تجربات نے یہ فیصلہ کر دیا کہ گوشت پوست کا جسم لباس ہے، اصل انسان نہیں تو یہ تلاش کرنا ضروری ہو گیا کہ اصل انسان کیا ہے اور کہاں چلا گیا ؟
اگر یہ جسم اصل انسان ہوتا تو کسی نہ کسی نوعیت سے اس کے اندر زندگی کا کوئی شائبہ ضرور پایا جاتا لیکن نوع انسانی کی مکمل تاریخ ایسی ایک مثال بھی پیش نہیں کر سکتی کہ کسی مردہ جسم نے نے کبھی کوئی حرکت کی ہو۔ اس صورت صورت : میں ہم اس انسان انسان کا کا تجسس کرنے پر مجبور ہیں جو جسم کے اس لباس کو چھوڑ کر کہیں رخصت ہو جاتا ہے۔ اس ہی انسان کا نام انبیاء کرام کی زبان میں روح ہے اور وہی انسان کا اصلی جسم ہے۔ نیز یہی جسم ان تمام صلاحیتوں کا مالک ہے جن کے مجموعے کو ہم زندگی سے تعبیر کرتے ہیں۔
بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور جنوری2023