غزل
نظر کو بھی حسن نظر چاہئے
جگر ہے تو درد جگر چاہئے
ہے منزل بھی راہی، ہے رستہ مگر
سفر کو بھی شرط سفر چاہئے
جسے پانے کو دل نے سوچا نہیں
اسے کھونے کو کیوں عمر چاہئے
جو برسوں رہا دل میں بن کے خدا
بضد ہو اسی بت کا سر چاہئے؟
بشر ہے فرشتوں کا مسجود گر
بشر کو خدائی ہنر چاہئے
جنوں کا ہے انجام اتنا فقط!
نہ شانہ پہ مجنوں کے سر چاہئے
فقیروں کی صحبت ذرا لیجئے
اگر زندگی پراثر چاہئے
خدا سے تعلق ہو گہرا بہت
اگر موت بھی پر اثر چاہئے
طلب دنیا ہے عقبٰی زاہد کہ اب
ادھر کچھ تو اور کچھ ادھر چاہئے