(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔نمائندہ خصوصی) 19 مئ میری کے سالگرہ کے روز جناب شیخ عبدالرشید صاحب نے کڑیانوالہ کے نواحی موضع چھالے شریف سے تعلق رکھنے والے ممتاز و سینئر ادیب و نقاد اور اردو شاعر محترم غلام مصطفیٰ بیکسؔ صاحب کا پہلا شعری مجموعہ ” دیپک لہجہ” کا یادگار اور تاریخی تحفہ دیا اسے دیکھتے ہی دل مسرور اور قلم پُرجوش ہوا . 1995ء سے گجرات کی ادبی تاریخ میں بطور کتاب شمار ہونے والا یہ شعری مجموعہ بالآخر 2023ء میں منظر عام پر آ ہی گیا. اس تاریخی و ادبی اہمیت کے حامل مجموعہ کلام کے لیے شیخ عبدالرشید صاحب کا دلی شکریہ کہ مجھ سمیت بڑے بڑے محققین گجرات کا مان رہ گیا۔ یہ کتاب مصطفیٰ بیکس صاحب کے مجموعہ سے بڑھ کر گجرات کی ادبی تاریخ کے محققین کی قلمی تپسیا کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوا ہے.
چوہدری غلام مصطفیٰ بیکسؔ اردو زبان کے بزرگ شاعر ہیں اور ماشاللہ زندگی کی 83 بہاریں دیکھ چکے ہیں اور کئ عشروں سے ادبی دنیا میں اپنی فکر و فن پر داد و تحسین وصول کر رہے ہیں . اس کتاب” دیپک لہجہ” کی اشاعت و طباعت کے حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ “گجرات میں اردو شاعری” کے مصنف پروفیسر کلیم احسان بٹ نے 1997ء میں اس کتاب کا حوالہ دیا. پھر
” گجرات کا علمی سرمایہ” کے مصنف جناب منیر احمد سلیچ جیسے معتبر محقق نے اس کا ذکر کیا ہے اور انہی بنیادوں پر راقم الحروف نے بھی اپنی کتاب” جلالپورجٹاں کے پنجابی شعراں دا تزکرہ ” میں بھی
” دیپک لہجہ” کو 1995ء میں شائع شدہ کتاب کے طور پر بطور حوالہ درج کیا. اس میں حیران کن اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ یہ کتاب ابھی مئ 2023ء میں پہلی دفعہ شائع ہوئ ہے۔
اس افسانوی پس منظر کی حقیقت یہ ہے کہ مصطفیٰ بیکس صاحب کی تین سے چار شعری بیاضیں کویت عراق جنگ میں ضائع ہو گئیں چنانچہ نوے کی دہائ میں کتاب تکمیل کے باوجود شائع نہ ہو سکی اور پھر چھپتے چھپتے لگ بھگ 28 سال کا سفر طے کر گئ. 1990ء کے عشرے کے وسط میں بھی
غلام مصطفیٰ بیکس صاحب کو مقامی حلقوں میں شیخ عبدالرشید نے ہی متعارف کروایا تھا کہ وہ تو بہت عرصے سے کویت میں مقیم تھے اور ان کی کتاب کا مژدہ بھی ماہنامہ ناوک جلالپورجٹاں میں اپنے ایک مضمون میں شیخ صاحب نے ہی سنایا تھا اور خوش آئند بات ہے کہ مکمل استقامت بھری کوشش سے انہوں نے یہ کرامت دکھائ ہے. بلاشبہ چوہدری غلام مصطفیٰ بیکسؔ کے شعری مجموعہ ” دیپک لہجہ ” کی حالیہ اشاعت میں بھی کلیدی کردار شیخ عبدالرشید صاحب کا ہی ہے ان سمیت کڑیانوالہ لٹریری سوسائٹی کےحلقہ احباب نے حقِ دوستی ادا کیا ہے.
“دیپک لہجہ ” عصری شعور اور کومل خیالات کا خوبصورت شعری گلدستہ ہے جو شہر سے ہٹ کر دوردراز کے ایک گاوں سے شائع ہوا ہے۔ اچھی و اعلیٰ تخلیق اور کتابیں ہمیشہ بڑے شہروں سے نہیں شائع ہوئ ہیں بلکہ اعلی ادب چھوٹے شہروں یا قصبوں سے ہی تخلیق ہوا ہے۔
مصطفیٰ بیکسؔ صاحب کی شاعری کا اسلوب سادہ اور رواں ہے ۔ وہ جبلی طور پر غزلیہ شاعری کے نمائندہ ہیں ۔ غزل کہنا ،لکھنا اور پڑھنا پسند کرتے ہیں. وہ لکھتے تو روایتی انداز میں ہیں مگر ان کی شاعری میں جدیدیت کے اعلی خیالات و جذبات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں ۔ ان کا حسُن شعر روایت و جدت کے امتزاج سے سنورا نظر آتا ہے. ایک اچھا شاعر وہی ہے جو اپنے اشعار کیوجہ سےجانا جائے۔ اس عہد اضطراب میں وہی شاعر زندہ رہے گا جس کےخیالات و جذبات تواناء اور گُل و بلبل کی روایت سےہٹ کر زمینی حقائق سے جڑے ہوئے ہوں گے. اس تناظر میں غلام مصطفیٰ بیکس کا ادراکِ شعر روح عصر کا نمائندہ ہونے کی وجہ سے دل میں جگہ بنا لیتا ہے. چوہدری صاحب منجھے ہوئے شاعر ہونے کے ساتھ پختہ قلم کے مالک نقاد بھی ہیں. ان ذوق شعر تخلیقیت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے.
جہاں تک سوال ہے گجرات کے شعری افق پر بیکسؔ صاحب کا قد کاٹھ کیا ہے؟ یہ تو پڑھنے والے خود ہی فیصلہ کریں گے مگر اس سے انکار ممکن نہیں کہ حالیہ دنوں کے حبس زدہ ادبی موسم میں ان کا شعری مجموعہ تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوا ہے. جس شہر میں کتابیں پڑھنے اور لکھنے والے کم ترین ہو گئے ہوں اور جس سماج میں کتاب شائع کروانا کٹھن ترین معاملہ ہو وہاں پڑھنے لکھنے والے ناپید ہو ہی جاتے ہیں . کرونا وبا کے بعد گجرات شہر سے زرا ہٹ کر ایک گاوں سے اعلی تخلیقی خیالات پہ مشتمل کتاب کا شائع ہونا اس بات کی نوید ہے کہ یہ خطہ گجرات شعری و ادبی تخلیقات کی اگواکاری سے دستبردار نہیں ہوا بلکہ شعر و ادب کی آبیاری میں اس کا اعلی مقام قائم و دائم ہے . گجرات کی مٹی ادبی حوالے سے بہت زرخیز ہے اور سخنوروں کی بستی میں “دیپک لہجہ” اپنی انفرادیت و مثبت تاثر کا حامل مجموعہ کلام بن کر نمودار ہوا ہے یہ ہمارے اجتماعی ادبی شعور کے لیے حوصلہ اور عزم کی نوید ہے.
مختصراً یہ کہ اس مجموعے کی پیشکش کے سارے کام کا کریڈٹ شاعر مصطفیٰ بیکس کے ساتھ ساتھ شیخ عبدالرشید ، چوہدری شکیل ضیاء، عاطف رزاق بٹ ملک تنویر احمد ڈاکٹر ذکی اور چوہدری شمشاد احمد شاہین کو جاتا ہے جنہوں نے اس شعری مجموعہ “دیپک لہجہ ” کی اعلیٰ طباعت و اشاعت کے صبر آزماء لمحات میں بھی اپنا کردار ادا کیا.
اس خوبصورت گیٹ اپ کے ساتھ لازوال یہ شعری مجموعہ پبلش کرنے پہ شاعر کے تمام دوستوں کا شکریہ اداکرتا ہوں ۔ جنہوں نے ایک مخفی و عام شخص کو خاص بنا دیا اور مستقبل میں سینکڑوں سال تک زندہ جاوید کر دیا ہے اور چھالے شریف کو امر کر دیا ہے.اہل قلم اس شعری مجموعے کی اشاعت پر بجا طور پر پُرجوش ہیں اور شاعر کو ہر ممکن داد و تحسین سے نواز رہے ہیں .