غزل
سارے جھگڑوں کی وجہ آدمی کی ہے زبان
دوستو رکھنا حفاظت اپنی تم، زبانوں کی
شاعر۔۔۔ناصر نظامی
ہو گئیں سب چیزیں مہنگی شہر کی، دکانوں کی
ایک بس قیمت گھٹی ہے آج کل، انسانوں کی
اب تو اک دوجے کا ہی خون پی لیتے ہیں لوگ
اب ضرورت ہی نہیں ہے یارو ان، مئے خانوں کی
اب تو کوئی شے نہیں ملتی ملاوٹ کے بغیر
خود ہی کرنی ہے حفاظت صحت کے، نقصانوں کی
اب تو مرغی میں بھی ملتا نہیں، مرغی کا گوشت
ہو گئی ہے ایسی یارو فیڈ مرغی خانوں کی
دودھ میں کھاد، مرچوں میں پھک، سبزیوں پہ رنگ
یہ نشانی ہے ہمارے کمزور، ایمانوں کی
مردہ جانوروں کی چربی سے بنتے ہیں تیل
لذت اڑ گئی اس واسطے ہمارے پکوانوں کی
بے تحاشہ رات دن مرغن کھانے کھانے سے
نالیاں بند ہونی ہیں دل کی ان ، شریانوں کی
اپنے پرس میں ڈال کے کھانا لے جاتے ہیں لوگ
غور سے رکھنا خبر تم شادی کے، مہمانوں کی
بچے گھر کے چپکے رہتے ہیں یوں آئی فون سے
کھڑکیاں وہ بند کر لیتے ہیں اپنے، کانوں کی
سیکورٹی کا عملہ اس لئے رکھا جاتا ہے
تنخواہ وہ لیں خبر خود رکھیں اپنے،سامانوں کی
خیرات دیتے ہیں ہم لوگوں کو حق نہیں دیتے
یہ وجہ ہے ہماری بد حالی کے، بحرانوں کی
اگر خود داری سے جینے کا ہنر ہم سیکھ لیں
کمی کہاں ہے کوئی اس ملک میں، خزانوں کی
ہماری قوم میں قومی سوچ کا ہے فقدان
یہی وجہ ہے الگ فرقہ بندی کے، خانوں کی
وفاداریاں بدلتی ہیں ایمان بکتے ہیں
بولیاں لگتی ہیں یہاں سیاست دانوں کی
اقتدار کی ہوتی ہیں سودے بازیاں
سیٹیں یہاں پر چرائی جاتی ہیں، ایوانوں کی
بدل جاتے ہیں تحریر شدہ نتائج یارو
مہر بانیاں جب ہوتی ہیں مہر بانوں کی
سارے جھگڑوں کی وجہ آدمی کی ہے زبان
دوستو رکھنا حفاظت اپنی تم، زبانوں کی
ملک میں جب ہو گا عدل و انصاف کا بول بالا
صدائیں گونجیں گی ناصر امن کے، ترانوں کی
ناصر نظامی