Daily Roshni News

جب زکوئی سلطان صلاح الدین ایوبی کے خیمے میں پہنچی

داستان ایمان فروشوں کی ۔۔

( جب زکوئی سلطان صلاح الدین ایوبی کے خیمے میں پہنچی) قسط2

صلاح الدین نے اس فتح کا جشن منانے کے بجاے حملے جاری رکھے اور تین قصبوں کو قبضے میں لیا، ان میں غازہ کا مشہور قصبہ تھا، اسی قصبے کے گردونواح میں ایک روز سلطان صلاح الدین ایوبی ، امیر جاوالاسدی کے خیمے میں دوپہر کے وقت غنودگی کے عالم میں سستا رھے تھے، سلطان نے وہ پگڑی نھیں اتاری تھی جو میدان جنگ میں سلطان کے سر کو صحرا کی گرمی اور دشمن کے تلوار سے بچا کر رکھتی تھی۔ خیمے کے باھر اسکے محافظوں کا دستہ موجود اور چوکس تھا، باڈی گاڈز کے اس دستے کا کمانڈر زرا سی دیر کے لیے وھاں سے چلا گیا، ایک محافظ نے سلطان کے خیمے میں گرے ھوے پردوں میں سے جھانکا، اسلام کے عظمت کے پاسبان کی آنکھیں بند تھیں اور پیٹھ کے بل لیٹا ھوا تھا، اس محافظ نے باڈی گاڈز کی طرف دیکھا، ان میں سے تین چار باڈی گاڈز نے اسکی طرف دیکھا، محافظوں نے اپنی آنکھیں بند کر کہ کھولیں) ایک خاص اشارہ(

تین چار محافظ اٹھے اور دو تین باقی باڈی گاڈز کو باتوں میں لگالیا، محافظ خیمے میں چلا گیا۔۔۔ اور خنجر کمر بند سے نکالا۔۔۔دبے پاؤں چلا اور پھر چیتے کی طرح سوئے ھوے سلطان صلاح الدین ایوبی پر جست لگای۔ خنجر والا ھاتھ اوپر اٹھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عین اسی وقت سلطان نے کروٹ بدلی، یہ نھیں بتایا جاسکتا کہ حملہ آور خنجر کہاں مارنا چاھتا تھا، دل میں یا سینے میں۔۔۔ مگر ھوا یوں کہ خنجر سلطان کی پگڑی کے بالائ حصے میں اتر گیا، اور سر بال برابر جتنا دور رھا اور پگڑی سر سے اتر گئ،

سلطان صلاح الدین بجلی کی سی تیزی سے اٹھا، اسے سمجھنے میں دیر نھی لگی کہ یہ سب کیا ھے ۔اس پر اس سے پہلے دو ایسے حملے ھو چکے تھے۔ اس نے اس پر بھی اظہار نھی کیا کہ حملہ آور خود اسکے باڈی گارڈ کی وردیوں میں تھے، جسے اس نے خود اپنے باڈی گارڈز کے لیے منتخب کیا تھا، اس نے ایک سانس برابر بھی اپنا وقت ضایع نہ کیا ۔ حملہ آور اپنا خنجر پگڑی سے کھینچ رھا تھا۔ ایوبی کا سر ننگا تھا۔۔ اس نے بھر پور طاقت سے ایک گھونسہ حملہ آور کی تھوڑی پر دے مارا۔ ہڈی ٹوٹنے کی آواز آئ۔ حملہ آور کا جبڑا ٹوٹ چکا تھا، وہ پیچھے کی طرف گرا اور اسکے منہ سے ھیبتناک آواز نکلی۔اسکا خنجر ایوبی کی پگڑی میں رہ گیا تھا، ایوبی نے اپنا خنجر نکال لیا تھا، اتنے میں دو محافظ اندر آے ، ان کے ھاتھوں میں تلواریں تھیں، سلطان صلاح الدین نے انھیں کہا کہ ان کو زندہ پکڑو۔

لیکن یہ دونوں محافظ سلطان صلاح الدین پر ٹوٹ پڑے، سلطان صلاح الدین نے ایک خنجر سے دو تلواروں کا مقابلہ کیا۔یہ مقابلہ ایک دو منٹ کا تھا۔ کیونکہ تمام باڈی گارڈز اندر داخل ھوچکے تھے، سلطان صلاح الدین یہ دیکھ کر حیران تھا کہ اسکے باڈی گارڈز دو حصوں میں تقسیم ھوکر ایک دوسرے کو لہولہان کر رھے تھے، اسے چونکہ معلوم ھی نہ تھا کہ اس میں اسکا دوست کون ھے اور دشمن سو وہ اس معرکہ میں شامل ھی نھی ھوا، کچھ دیر بعد باڈی گارڈز میں چند مارے گیے کچھ بھاگ گیے کچھ زخمی ھوے، تو انکشاف ھوا کہ یہ جو دستہ سلطان صلاح الدین کی حفاظت پر مامور تھا اس میں سات فدائ ) انکا زکر پہلے حصے میں کیا جا چکا ھے کہ یہ کون تھے کسی کو سمجھ نھی آی ھو تو وہ پہلا حصہ پڑھ لیں شکریہ۔۔ ( تھے جو سلطان صلاح الدین کو قتل کرنا چاھتے تھے، انھوں نے اس کام کے لیے صرف ایک فدائ کو اندر خیمے میں بھیجا تھا، اندر صورت حال بدل گئ تو دوسرے بھی اندر چلے گئے، اصل محافظ بھی اندر چلے گئے وہ صورت حال سمجھ گئے ، سو سلطان صلاح الدین بچ گیا۔سلطان صلاح الدین نے  اپنے پہلے حملہ آور ھونے والے کی شہ رگ پر تلوار رکھ کر پوچھا ، کہ وہ کون ھے اور اسکو کس نے بھیجا ھے۔ سچ کہنے پر سلطان نے اسکے ساتھ جان بخشی کا وعدہ کیا۔ اس نے کہا کہ وہ ” فدائ ” ھے اور اسکو کیمیشتکن ) جسے بعض مورخین نے گمشتگن بھی لکھا ھے( نے بھیجا ھے کیمیشتکن الصالح کے قلعے کا ایک گورنر تھا

#copy

Loading