غزل
شاعر۔۔۔ناصر نظامی
میں شہر سے لے کے، ڈر، آ گیا ہوں
کم ظرف تھے، معتبر،۔۔۔آ گیا ہوں
بچا کے میں اپنا، سر، آ گیا۔۔ ہوں
بھر کے دامن میں، پتھر، آ گیا ہوں
دریا کے لب تھے سوکھے میری طرح
آنکھوں میں ریت، بھر کر، آ گیا ہوں
سبیل پر تصویر نہ ۔۔۔۔ بنوائی
اس لئے پیاسا ہی، گھر، آ گیا ہوں
جس گلی نہ جانے کی قسم کھائی۔۔
اس گلی سے گزر کر، آ گیا ہوں
شکاری نشانہ ہی، لے رہا تھا۔۔
اس سے پہلے ہی اڑ کر، آ گیا ہوں
صیاد نے تو کاٹ دئیے تھے پر۔۔
میں بنا پر کے ہی، پر، آ گیا۔ ہوں
ہجرت کرنے کا ہوا اک فائدہ۔۔
لوٹ کر پھر اپنے، گھر، آ گیا ہوں
میں جھرنا بن کے پھوٹا پتھروں سے
پھول بن کے شاخ، پر، آ گیا ہوں
میں خود ہی آئینہ، خود ہی عکس ہوں
خود بن کے آئینہ گر، آ گیا۔ ہوں
سجدے کا منکر، جنت میں ہی رہا
میں مسجود تھا، باہر، آ گیا۔ ہوں
میرا تھا کبھی عرش پر۔ ٹھکانا
خطا کی، زمین پر، آ گیا۔۔ ہوں
ہوتا اگر دانا، نہ کھاتا۔۔۔ دانہ
نادانی کی بنا، پر، آ گیا۔۔۔ ہوں
خدا بن کے آتا، پہچانا۔۔۔ جاتا
جہاں میں بن کے، بشر، آ گیا ہوں
میں ہوں اس کا، وہ ہے میرا آیئنہ
میں بن کے اس کا، مظہر، آ گیا ہوں
اس کی امانت کا بن کر۔۔۔ امین
میں اس کا، امر، بن کر، آ گیا ہوں
مجھے اب نہیں، خدا کی۔۔ تلاش
نظامی، خود کو، نظر، آ گیا۔۔۔ ہوں
ناصر نظامی