Daily Roshni News

۔360سال بعد…تحریر۔۔۔جاوید چوہدری۔۔آخری قسط

سال بعد 360

تحریر۔۔۔جاوید چوہدری

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مارچ 2019

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔360 سال بعد ۔۔۔تحریر ۔۔۔ جاوید چوہدری) اٹھائیں گے لہذا یوں پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ لاہور کے مضافات میں ہر سال سیلاب آتا ہے اور سیکڑوں لوگوں کی ہزاروں املاک بہالے جاتا ہے لیکن لوگ سیلابوں کی روک تھام کا کوئی بندوبست نہیں کرتے چنانچہ اگلے سال دوبارہ تباہی دیکھتے ہیں۔

فرانسیس بر نئیر نے ہندوستان کے لوگوں کے بارے میں لکھا یہ کاریگر ہیں لیکن یہ اپنی کاریگری کو صنعت کا درجہ نہیں دے پاتے لہذا فن کار ہونے کے باوجود بھوکے مرتے ہیں۔ یہ اگر اپنی فنکاری کو ہے او کار خانے کی شکل دے لیں تو خود بھی خوشحال ہو جا ئیں اور دوسرے لوگوں کی مالی ضروریات بھی پوری   ہو جائیں۔ ہندوستان کے لوگ روپے کو کاروبار میں نہیں لگاتے۔ یہ رقم چھپا کر رکھتے ہیں۔ عوام زیورات بچا کے خبط میں مبتلا ہیں۔ لوگ بھوکے مر جائیں گے لیکن اپنی عورتوں کو زیورات ضرور پہنائیں گے۔

ملک کا نصاب تعلیم انتہائی ناقص ہے۔ یہ بچوں کو صرف زبان سکھاتا ہے ان کی اہلیت میں اضافہ نہیں کرتا۔ خود اور نگزیب نے میرے سامنے اعتراف کیا میں نے اپنے بچپن کا زیادہ تر وقت عربی زبان سیکھنے میں ضایع کر دیا۔ ملک میں رشوت عام ہے۔ آپ کو دستاویزات پر سرکاری مہر لگوانے کے لیے حکام کو رشوت دینا پڑتی ہے۔ صوبے داروں کے پاس وسیع اختیارات ہیں۔ یہ ایک وقت صوبے دار بھی ہوتے  ہیں، خزانچی بھی ، وکیل بھی، جج بھی ‘پارلیمنٹ بھی اور جیلر بھی۔ سرکاری اہلکار دونوں ہاتھوں سے دولت لٹاتے ہیں۔ بادشاہ نے اپنے لیے 3 کروڑ 184 روپے کا ( 1660 میں) تخت بنوایا، سرکاری عہدیدار پروٹوکول کے ساتھ گھروں سے نکلتے ہیں۔ یہ ہاتھیوں پر سوار ہو کر باہر آتے ہیں، ان کے آگے سپاہی چلتے ہیں۔ ان سے آگے ماشکی راستے میں چھڑکاؤ کرتے ہیں۔ ملازموں کا پورا دستہ مور جھل اٹھا کر رئیس اعظم کو ہوا دیتا ہے۔ ایک دو ملازم اگل دان اٹھا کر صاحب کے ساتھ چلتے ہیں۔یہ لوگ گھر بہت فضول بناتے ہیں۔ ان کے گھر گرمیوں میں گرمی اور جس سے دوزخ بن جاتے ہیں اور سردیوں میں سردی سے برف کے غار۔

بادشاہ اور امراء سیر کے لیے نکلتے ہیں تو چھ چھ ہزار مزدور ان کا سامان اٹھاتے ہیں۔ ہندوستان کا اشرافیہ طوائفوں کا بہت دلدادہ ہے۔

ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں طوائفوں کے کوٹھے ہیں۔ امراء اپنی دولت کا بڑا حصہ ان پر نچھاور کر دیتے ہیں۔ طوائفیں شاہی خاندان کی تقریبات میں بھی بلوائی جاتی ہیں اور دربار سے وابستہ تمام لوگ ان کا رقص دیکھتے ہیں۔ وزراء صبح اور شام دو مر تبہ بادشاہ کے سامنے حاضر ہوتے ہیں۔ بادشاہ کے حضور حاضری نہ دینے والے وزراء عہدے سے فارغ کر دیے جاتے ہیں۔ ہندوستان میں گرد، غبار، گندگی، بو اور بے ترتیبی انتہا کو چھورہی ہے اور جرائم عام ہیں۔ مجرم اول تو پکڑے نہیں جاتے اور اگر پکڑ لیے جائیں تو یہ سفارش یار شوت کے ذریعے چھوٹ جاتے ہیں۔ یہ فرانسیس برنیئر کے طویل سفرنامے کے چند مختصر حقائق تھے، آپ ان حقائق کو دیکھئے اور اس کے بعد آج کے پاکستان پر نظر دوڑائیے۔ آپ کو یہ جان کر اطمینان ہو جائے گا۔ ہم نے الحمد للہ 360 سال میں کچھ نہیں سیکھا، ہمارے کلچر ، ہماری روایات اور ہمارے سماجی ڈھانچے میں 1660 سے 2019 تک کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ہم لوگ جس طرح شاہ جہاں اور اور نگزیب عالمگیر کے دور میں زندگی گزار رہے تھے ہم الحمد للہ آج بھی ویسے ہی ہیں۔ ہمارے ملک میں آج بھی گدھوں کا گوشت فروخت ہوتا ہے، ہمارے حکام آج بھی رشوت، خوشامد اور سفارش پر چل رہے ہیں۔ ہمارے لیڈر آج بھی ”سب کچھ ہیں“ ہم آج بھی پروٹوکول کے سائرن سنتے ہیں۔ ہمارے ایوانوں میں آج بھی وسیع پیمانے پر فضول خرچی ہو رہی ہے۔ ہم آج بھی سیلابوں میں ڈوبتے اور مرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں آج بھی سر عام بے گناہ ۔ نصاب لوگوں کو گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے۔ ہمارے حلوائیوں کی دکانوں پر آج بھی لکھیوں کا اقتدار قائم ہے اور ہمارے بازار آج بھی بے ترتیب اور ب تعلیم انتہائی ناقص ہے اور خوشامد آج بھی پر فارمنس سے زیادہ حیثیت رکھتی ہے۔ ہم نے الحمد للہ 360 سال میں کچھ نہیں سیکھا۔ ہم جس رفتار سے چل رہے ہیں ہم یقینا اگلے تین سو ساٹھ سالوں میں بھی کچھ نہیں سیکھیں گے۔ کیوں….؟

کیونکہ ملک میں آج بھی ایسے شاہ جہانوں کی حکومت ہے جو بنی گالہ اور جاتی عمرہ کو وارسائی محل بنا دیتے ہیں لیکن لوگ فیکٹریوں کا آلودہ پانی پیتے ہیں۔ یہ بلاول ہاؤس، بے نظیر ہاؤس اور زرداری ہاؤس کو سوئس کا پیج بنالیتے ہیں لیکن کراچی ،لاڑکانہ اور نواب شاہ کو قاتلوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ ان کے محلوں میں جشن چلتے ہیں لیکن شہر میں تین تین سو لوگ مر جاتے ہیں اور کوئی حاکم منہ سے اُف تک نہیں کرتا۔ جب حکمران ایسے ہوں تو برا وقت قوموں کے نصیب میں آکر ٹھہر جاتا ہے۔ یہ 360 سال بعد بھی مرداروں کا گوشت کھاتی ہیں اور عمران خان، میاں صاحبان اور زرداری صاحبان کی خوشامد کرتی ہیں۔ ان کا کل اور آج برابر ہوتا ہے۔

Loading