Daily Roshni News

انسان کا مستقبل۔۔۔قسط نمبر1

انسان کا مستقبل

قسط نمبر1

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )دولت کی ہوس میں زمین کی حق تلفی ،آفات اور امراض کا سبب  بن  رہی ہے۔کہتے ہیں کہ آدم کی ایک غلطی کی وجہ سے

جب آسمانوں پر رہنا ممکن نہ رہا تو اسے زمین پر اتار دیا گیا مگر اب جب بنی آدم کی اپنی بے شمار غلطیوں کی وجہ سے زمین پر رہنا ممکن نہ رہے تو یہ اربوں لوگ کدھر جائیں گے….؟

انسانوں کی اپنی ہی کاروائیوں کے سبب زمین پر انسانی زندگی کے لیے ناگزیر عناصر ختم ہوتے جارہے ہیں اور شاید کچھ صدیوں بعد آنے والی ہماری نسلوں کے لیے حالات اور زیادہ سنگین ہو جائیں۔

آئے روز ذرائع ابلاغ میں ماحولیاتی ماہرین اور سائنسدانوں کی جانب سے مسلسل وارنگ دی جاتی ہے کہ گرین ہاؤس گیسیز ، کاربن ڈائی آکسائیڈ، مونو آکسائیڈ اور دیگر گیسز کے اخراج میں اضافے کی وجہ سے زمین، فضا اور پانی شدید شدید آلودہ ہو رہے ہیں۔ اوزون کے خلاف میں پیدا ہونے والا سوراخ اور اس کے ذریعہ زمین پر پڑنے والی الٹرا وائیلٹ شعائیں آکسیجن اور حیاتیات کو شدید متاثر کر رہی ہیں اور زمین کے درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ گرین لینڈ انٹار کٹیکا اور ہمالیہ گلیشر زیر گلوبل وارمنگ کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ مون سون ہواؤں نے اپنا رخ تبدیل کرنا شروع کر دیا ہے، سمندری کی سطح میں بتدریج اضافہ کا عمل جاری ہے ، دریاؤں کے پانی میں بہاؤ کی کمی کی وجہ سے ڈیلٹا کے علاقوں میں سمندری پانی اندر آکر اپنی جگہ بنا رہا ہے، سمندر کے اندر تک آجانے سے ڈیلٹا کے خطوں کی زراعت اور معاشرت تباہ ہو رہی ہے، سمندری حیات، حیوانات اور نباتات پر منفی اثرات نمایاں ہورہے ہیں، بیماریوں اور مختلف وائرس میں اضافہ ہو رہا ہے۔

مخط استوا کے خطے، مشرق وسطی اور جنوبی ایشیاء کے بیشتر علاقوں میں پانی کی کمی، خشک سالی اور فصلوں میں کمی بڑا مسئلہ بنتی جارہی ہے۔ فضائی سفر میں اضافے کی وجہ سے فضا میں طیاروں کے ایندھن کے جلنے سے خارج ہونے والی گیسز میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ کیمیائی کثافت اور صنعتی فضلے کو مناسب طور پر ٹھکانے نہ لگانے کے سبب صحت عامہ پر مضر اثرات گہرے ہور ہے ہیں۔ نئے وبائی امراض کا سلسلہ سامنے آرہا ہے۔ گھنے جنگلات کی بیدردی سے کٹائی اور ان خطوں میں آبادی کے پھیلاؤ سے جنگلی حیاتیات میں سے بیشتر عالمی ماحول اور آفات: اقوام متحدہ کے ماہرین نے خبر دار کیا ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں 1.1 ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ متعدد آفات کا سبب بنے گا۔ اس کے اثرات گرمی کی لہروں، خشک سالی، سیلاب، موسم سرما کے طوفانوں، سمندری طوفان اور جنگل کی آگ سمیت انتہائی موسمی واقعات کی شکل میں محسوس کیے جارہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے دفتر (یو این ڈی ڈی آر ) کی رپورٹ میں خبر دار کیا گیا کہ 2000 اور 2019 کے درمیان دنیا بھر میں قدرتی آفات سے ہونے والی اموات میں سے 13 فیصد شدید درجہ حرارت کی وجہ سے ہوئیں جبکہ ان اموات میں سے اکثریت (91 فیصد) ہیٹ ویو کا نتیجہ تھیں۔ اقوام متحدہ کے محققین نے خبر دار کیا کہ اس صدی کے پہلے 20 سالوں نے آب و ہوا کی آفات میں حیرت انگیز اضافہ دیکھا ہے، 2003 میں یورپ میں ہیٹ ویو کی ایک بڑی لہر نے 72 ہزار سے زیادہ افراد کو ہلاک کیا اور 2010 میں، ہیٹ ویو کی ایک اور لہر روس میں 55 ہزار سے زیادہ اموات کا سبب بنی تھی، 2019 میں دو ہیٹ ویو کے نتیجے میں فرانس میں ایک ہزار 400 سے زیادہ اموات ہوئیں۔ 2000 سے لے کر 2019 تک تمام آفات میں سیلابوں کا تناسب 44 فیصد تھا جس نے پوری دنیا میں 1.6 ارب افراد کو متاثر کیا جو کسی بھی نوعیت کی آفت کا سب سے زیادہ اعداد و شمار ہے، 2000 سے لے کر 2019 تک سیلاب کے سب سے خطر ناک واقعات میں جون 2013 میں ہندوستان میں سیلاب میں 6 ہزار 54 اموات، بیٹی میں مئی 2004 کے سیلاب میں 2 ہزار 665 اموات اور پاکستان میں جولائی 2010 کے سیلاب میں ایک ہزار 985 اموات ہوئیں۔ آفت سے متاثرہ افراد کی مجموعی تعداد کے لحاظ سے ابتدائی 10 ممالک کی فہرست میں ایشیا کے 7 ممالک شامل ہیں جبکہ اس میں امریکی خطے کے دو ممالک امریکا اور برازیل جبکہ ایک افریقی ملک ایتھوپیا شامل ہے۔

معدوم ہو چکی ہیں۔سائنس دانوں کو اس امر پر تشویش ہے کہ عالمی منڈی میں کاروں کی فروخت اور صنعتی پیداوار میں اضافہ، مسابقت کا عمل، انسانی خواہشات اور طمع اس کرہ ارض کے قدرتی ماحول کو مزید متاثر کر رہے ہیں۔ تیل اور کوئلہ کے استعمال میں اضافہ سے گرین ہاؤس گیسیز میں مسلسل اضافہ عمل میں آرہا ہے اور دنیا خطرات کی طرف سے تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

زمین کے وسائل کے بے دریغ استعمال سے زندگی بر قرار رکھنے والے عناصر کو ناقابل تلافی نقصان ہو رہا ہے۔ ماحول کی بگڑتی ہوئی صورتحال

کی وجہ سے غربت، بھوک اور صحت کے مسائل سے نمٹنے کے ہدف حاصل کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ انسانوں نے انتہائی کم وقت میں زمین پر قائم حیاتیاتی نظام کو غیر معمولی حد تک تبدیل کر دیا ہے۔ صرف گزشتہ ساٹھ سالوں میں جس طرح پانی، لکڑی ، تیل اور خوراک کے وسائل استعمال کیے گئے ہیں اس سے ماحول انتہائی خراب ہو چکا ہے۔ جنگ عظیم کے بعد سے قدرتی وسائل حاصل کرنے کی جو غیر متوازن دوڑ شروع ہوئی ہے وہی موجودہ صور تحال کی ذمہ دار ہے۔ قدرتی ماحول میں تبدیلی سے کرہ ارض اور اس پر موجود حیاتیات کو بڑے خطرات کا سامنا۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی  ڈائجسٹ مئی 2021

Loading