Daily Roshni News

مرشد کریم ہدایات، سلام عارف بھائی کی زبان سے۔۔

مرشد کریم ہدایات، سلام عارف بھائی کی زبان سے:

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )اللہ تعالی سے کوئی چیز نہیں مانگیں بلکہ اس چیز کی توفیق مانگیں ۔

روحانیت کی تئیس کلاسیں ہوتی ہیں ۔ تئیس کلاسوں میں ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ ہم عظیمی بہن بھائی کون سی کلاس میں ہیں؟

ہم نے کتنی کلاسیں پاس کی ہیں؟

کیا پہلی کلاس میں آگئے ہیں آپ لوگ؟

ایک بھائی نے ابا جی سے فرمایا کہ میں اس بندے کو تیار کر کے لایا ہوں آپ کے پاس، تربیت کر کے لایا ہوں تو ابا جی: کیا آپ کی تربیت ہو گئی مکمل ؟

سلام عارف بھائی نے عرض کیا کہ کلاسیں ہوتی ہیں، لوگ پڑھاتے ہیں ۔ ابا جی : اچھا کیا وہ استاد بن گئے ؟

اباجی : بعض لوگ 6 کلاسیں پاس کر پاتے ہیں،  بعض لوگ 12 کلاسیں پاس کر پاتے ہیں ۔ 23 کلاسوں والے کم ہیں ۔

اباجی: اگر 23 کلاسوں میں سے کوئی کلاس پاس نہیں کی تو کیا لوگ اس طرف متوجہ ہیں؟

اباجی: وہاں(یورپ) میں ہر بندہ مجھ سے کہتا ہے کہ جو آپ کو آتا ہے وہ سکھا دیں۔ یہاں ہر بندہ کہتا ہے کہ بابا جی میرا یہ مسئلہ ہے۔  اتنے سال میں روحانیت مسئلہ نہیں ہے ۔ باقی سب مسئلہ ہے۔ بھئی کچھ نظر ادھر بھی کریں ۔ اور اگر پہلی کلاس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تو کم سے کم اپنے اسباق کی طرف، اپنی ڈیوٹی کی طرف، اپنے روحانی معاملات کی طرف متوجہ ہوں اور جو کچھ بتا دیا گیا ہے اوراد و وظائف اس کی طرف متوجہ ہوں ۔ اور یا حی یا قیوم آسان ہے، اس میں مشکل نہیں ہے۔ تو جتنا ہو سکے اس کو پڑھتے رہیں اور مرشد کی طرف متوجہ رہیں اور جو ڈیوٹی لگی ہے روحانی معاملات میں جو اسباق ہیں ان کی اور پابندی کریں ۔

اباجی: میرا یہ یقین ہے کہ جو اس طرف متوجہ ہو گا وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گا اور وہ بہت مطمئن اور پر سکون ہو جائے گا۔

اباجی: اگر کبھی کوئی بے چینی ہے، پریشانی ہے، مسائل ہیں اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ ہم اپنے روحانی معاملات کی طرف متوجہ نہیں ہیں

ایک صاحب ابا جی کی پاس آئے اور کہا کہ میں بڑا پریشان ہوں تو

ابا جی: میں چھوٹا پریشان ہوں ۔ پھر ابا جی نے فرمایا کہ آپ کیوں آئے میرے پاس ؟ انہوں نے کہا کہ میں بڑا پریشان ہوں۔

ابا جی: میں چھوٹا پریشان ہوں اس لئے آپ میرے پاس آئے ۔ اگر میں آپ سے کہتا کہ میں بڑا پریشان ہوں تو آپ چلے جاتے اور مجھے بھی ساتھ کسی بابے کے پاس لے جاتے کہ یہ بابا جی بھی پریشان ہیں ۔

اباجی: بات یہ ہے کہ توجہ اپنے معاملات کی طرف نہیں ہے۔ مزاج میں عام طور پر انتشار ہے۔ جو بھی آپ کی روٹین ہے، اس میں جو بھی آپ کی توجہ جن معاملات پر ہونی چاہیے، ان معاملات پہ آپ وقت بنا کر توجہ نہیں دیتے۔

اباجی: اگر آپ اپنے کاموں کو وقت بنا کر کریں تو ممکن ہی نہیں ہے کہ آپ کے معاملات میں پریشانی رہے۔ اور آپ کے روحانی معاملات آگے نہ بڑھیں ۔

سلام بھائی نے کہا کہ میں نے آپ کو ہر معاملے میں کامیاب دیکھا ہے ۔

ابا جی: کیوں کامیاب دیکھا ہے؟ سلام بھائی: آپ نے ہر کام وقت پر کیا ہے یا وقت بنا کر کیا ہے۔

ابا جی نے فرمایا بالکل ٹھیک ہے۔

اباجی: اگر آپ دنیاوی معاملات میں اپنا ٹائم مقرر کر لیں اور یہ طے کر لیں کہ کوئی کام وقت کے علاوہ نہیں کرنا ۔ تو کیا یہ ممکن نہیں کہ آپ دنیاوی معاملات میں کامیاب ہو جائیں ۔

اباجی: جب آپ کی پریکٹس ہو گئی۔ آپ ایک معاملے میں کامیاب ہو گئے تو پھر باقی معاملات بھی مشکل نہیں ہیں ۔ پھر عین ممکن ہے کہ آپ روحانی معاملات میں بھی کامیاب ہو جائیں ۔

سوال : راضی برضا کیا ہے ؟

ابا جی: ہر چیز طے شدہ ہے ۔ آپ کی پیدائش طے شدہ ہے۔ اس کا وقت طے شدہ ہے ۔ آپ کی موت کا وقت طے شدہ ہے ۔ زندگی جو آپ دنیا میں گزارتے ہیں یہ طے شدہ ہے۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ کے معاملات پر اللہ کی نظر نہ ہو؟

جب آپ کے معاملات پر اللہ کی نظر طے شدہ ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مسائل کا حل نہ ہو ؟

اباجی: قرآن میں آیت ہے کہ مشکل اور آسانی ساتھ ہے۔ اس کا مطلب کیا ہے ؟

ابا جی نے فرمایا کہ سامنے کیا رکھا ہے ؟

سلام بھائی: یہ جگ اور گلاس رکھا ہے۔

ابا جی : جگ کی مثال دنیا کی ہے اور گلاس کی مثال جو ہے وہ تمہاری ہے۔ اور بیچ میں فاصلہ کتنا ہے؟ سلام بھائی: 1 انچ ہے۔

ابا جی نے فرمایا: یہ قانون ہو گیا ۔

اباجی: اب گلاس کو جگ کی طرف لے کر جاو ۔

سلام بھائی: گلاس کو جگ کی طرف لے کر گئے تو قانون 1 انچ تھا بیچ میں ۔ تو 1 انچ کا فاصلہ رہا اور جگ ہٹ گیا اور گلاس پیچھے آ گیا۔

ابا جی: اب گلاس کو ہٹاو ۔

سلام بھائی: جب گلاس کو ہٹایا تو ایک انچ کا فاصلہ تھا ۔ جگ پیچھے آیا ۔ تو

ابا جی: کچھ سمجھ میں آیا؟

ابا جی: روحانی لوگ اس قانون کو جانتے ہیں ۔ آپ دنیا میں جذب نہیں ہو سکتے۔ فاصلہ ہمیشہ رہے گا۔

ابا جی: روحانی لوگ اس قانون کو جانتے ہیں یا تو وہ اپنی جگہ قائم ہو جاتے ہیں اور دنیا ان کو فیض دیتی ہے۔

ابا جی: یا پھر وہ دنیا سے ہٹتے جاتے ہیں اور دنیا ان کے پیچھے جاتی ہے۔

اباجی: بات یہ ہے کہ وہ دنیا پر حاوی ہوتے ہیں، دنیا ان پر حاوی نہیں ہوسکتی۔

اباجی: مرشد کا کام ہے کہ اپنی روحانی اولاد کو راستے پر لگانا لیکن چلنا روحانی اولاد کا کام ہے۔

اباجی: اگر آپ بیٹھے رہیں گے تو بھی عمر گزر جائے گی۔ لیکن اللہ تعالی چلنے کو پسند کرتے ہیں ۔ اللہ تعالی حرکت کو پسند کرتے ہیں ۔ حرکت میں برکت ہے۔

ایک صاحب ابا جی کے پاس آئے اور کہا کہ میں بڑا پریشان رہتا ہوں اور میرے معاملے بڑے خراب ہیں ۔

ابا جی نے انہیں غور سے دیکھا کہ آپ کی بیوی آپ سے ناراض رہتی ہے اور آپ اپنی بیوی کی دل آزاری بہت کرتے ہیں ۔ کچھ نہیں کر سکتے نہ تو شام کو جاتے ہوئے گلاب کا ایک پھول لے جایا کرو۔

اباجی: نصیب کا تعلق بیوی سے ہے۔ اولاد کا تعلق مرد سے ہے۔ یہ جو نصیب آپ کا گڑبڑ ہے یہ آپ کی وجہ سے گڑبڑ ہے۔ آپ اپنی بیگم کا بہت خیال رکھا کریں ۔ پھر ان صاحب کے معاملے ٹھیک ہو گئے۔

ایک صاحب ابا جی کے پاس آئے اور کہا کہ میں اپنے کاروبار کو بہت ٹائم دیتا ہوں لیکن میرا کام سیٹ نہیں ہوتا۔

ابا جی: آپ لوگوں سے امید رکھتے ہیں ۔ امیدوں میں ان سے توقعات قائم کر لیتے ہیں اور اپنا سامان ان کو ادھار دیتے ہیں ۔

ابا جی نے فرمایا کہ اخلاق کا دامن آپ نہ چھوڑیں لیکن اپنا سامان انہیں ادھار دینا چھوڑ دیں ۔

پھر قرآن کی آیت سنائی کہ اتنے سخی نہ بن جاو کہ مشکل میں گرفتار ہو جاو۔

اباجی: آدمی آدمی کو کیا دے سکتا ہے ؟ جو اس اختیار میں ہے وہ وہی دے سکتا ہے لیکن اللہ تعالی وہ سب کچھ دے سکتا ہے جو اللہ تعالی کے اختیار میں ہے ۔

اباجی: آپ ایک لاکھ خواہشیں نہیں کر سکتے۔ اللہ تعالی ایک لاکھ خواہشیں پوری کر سکتا ہے۔

اباجی: اللہ والوں کی زندگی ایسی ہی ہوتی ہے۔ وہ اپنی ہر امید، ہر توقع اللہ تعالی سے باندھ لیتے ہیں ۔ اللہ تعالی جس حال میں رکھتا ہے وہ اس میں خوش رہتے ہیں ۔

اباجی: اگر آپ ان کی زندگی کا مطالعہ کریں تو شاید ہی ان جیسا بندہ آپ کو دنیا میں ملے گا۔ اتنے وسائل اس کو اللہ تعالی عطا کرتے ہیں جو کسی کی سوچ سے باہر ہوتے ہیں ۔

سوال: سب سے زیادہ اہمیت کس کی ہے ؟

ابا جی: سب سے زیادہ اہمیت اللہ تعالی کی ہے۔ کیا نہیں ہونی چاہئے۔ جب اللہ تعالی کی اہمیت ہو گی تو کیا ہو گا؟

سلام بھائی: جب اللہ کی اہمیت ہو گی تو وقت اللہ نے دیا ہے  تو زیادہ وقت اللہ کا ہے۔

ابا جی: یہ بات صحیح ہے ۔ جب زیادہ وقت اللہ کا ہے تو کیا ہو گا؟

سلام بھائی: زیادہ وقت اللہ کی طرف متوجہ رہیں گے۔

ابا جی: تو بتاو کہ اس میں فائدہ ہے یا نقصان ہے؟

سلام بھائی: جی اس میں تو بڑا فائدہ ہے۔ جب اللہ کی طرف متوجہ رہیں گے تو اللہ ہی سے امیدیں باندھیں گے۔ انہی سے اپنی گزارشات کریں گے۔

ابا جی: جب آپ اللہ تعالی سے مانگیں گے تو آپ کا کیا خیال ہے، آپ کو نہیں ملے گا ؟

سلام بھائی: جی ہر چیز ملے گی۔

ابا جی: بس اتنی سی بات ہے ؟ یہ ہی مشکل تھی۔ بس یہ اتنی سی مشکل ہے کہ ہمارے ذہن میں لوگوں سے امیدیں ہیں،  توقعات ہیں ۔ ہمارے ذہن میں اللہ تعالی کی اہمیت ، اللہ تعالی سے توقعات نہیں ہیں ۔ دعا ہم کرتے ہیں تو دو منٹ میں دعا مانگ کر نکل جاتے ہیں ۔ مجھے بتائیں کہ جب ہم پریشان رہتے ہیں تو کتنا رہتے ہیں؟

سلام بھائی: جی ہر وقت ہی رہتے ہیں ۔

ابا جی: پھر جنتی کیسے ہوئے ؟

سلام بھائی: جنتی نہیں ہوں گے۔

ابا جی: جب زیادہ ٹائم آپ دوزخ کی طرف متوجہ رہیں گے تو آپ کو کیا ملے گا ؟

سلام بھائی: جی دوزخ ملے گی۔

ابا جی: جب زیادہ ٹائم آپ اللہ کی طرف متوجہ ہوں گے؟

سلام بھائی: جی ہم پرسکون رہیں گے۔ جنتی ہو جائیں گے۔

ابا جی: پھر بتاو کہ آپ کے اختیار میں جنت ہے یا دوزخ ہے ؟

سلام بھائی: جی میرے اختیار میں دونوں ہیں ۔میں پریشان رہوں گا۔ میں غصہ میں رہوں گا۔ میں شک میں رہوں گا تو میں جہنم میں جاوں گا۔

ابا جی: بات ختم ہو گئی۔ اب اللہ تعالی کب آپ کو جہنم یا جنت دے رہا ہے؟

سلام بھائی: جی میں ہی لے رہا ہوں ۔

ابا جی: پھر آپ ہی فیصلہ کرتے ہیں جنت ، جہنم کا۔ حضرت رابعہ بصری رح نے فرمایا ہے کہ آدمی اپنی جنت اور اپنی جہنم ساتھ لے کر پھرتا ہے۔ تو جب طرز فکر ہی جہنمی ہو گی تو جنت میں کیسے داخل ہوں گے ؟

ایک صاحب نے کہا کہ میرے معاملے ٹھیک نہیں ہوتے۔ میں بڑا پریشان رہتا ہوں آپ میرے لئے دعا کریں

ابا جی: آپ دوا کریں

 انہوں نے کہ دوا کھانی پڑے گی؟

ابا جی : دوا نہیں کھانی پڑے گی، کرنی پڑے گی۔

انہوں نے کہا کہ کیا کرنی پڑے گی ؟

ابا جی : آپ جو کچھ سوچتے ہیں ۔ اس پر رات کو بیٹھ کر غور کیا کریں کہ سارا دن میں آپ نے جو کام کیئے اور جو آپ کی سوچ رہی وہ کیا رہی ؟ 15 منٹ جب آپ رات کو بیٹھ کر سوچیں گے کہ سارا دن میں کیا کام کئے ؟ تو آپ جنتی ہو جائیں گے۔

انہوں نے کہا کی بڑا آسان ہے یہ تو۔

ابا جی: آسان اس لئے ہے کہ آپ کو یہ سمجھ میں آجائے گا کہ غلطی آپ نے کہاں کی ہے؟ جب آپ اپنی غلطیوں کو پہچان جائیں گے تو یقینا آپ ان غلطیوں کی اصلاح کرلیں گے۔ جب آپ اپنی غلطیوں کی اصلاح کر لیں گے تو ماشاء اللہ آپ جنتی ہو جائیں گے۔

سلام بھائی: میں نے ابا جی سے کہا کہ میں تو ہر ایک کے لئے اچھا سوچتا ہوں ۔ ہر ایک کے لئے کوشش کرتا ہوں لیکن یہ لوگ ٹھیک نہیں ہوتے۔

ابا جی: پرابلم کیا ہے کہ تم لوگوں کی اصلاح چاہتے ہو لیکن تم کوئی بھی کام اللہ کے لئے کرو گے تو تمہارے ذہن میں کبھی توقع نہیں آئے گی۔ تم سوچو گے اللہ ایسا چاہتا ہے تو تم مطمئن ہو جاو گے۔

ابا جی: راضی برضا کیا ہے؟

سلام بھائی : جی پتہ نہیں

ابا جی: راضی برضا یہ ہے کہ اللہ کیا چاہتا ہے؟

سلام بھائی: یہ بڑا آسان ہے۔

ابا جی: یہ بڑا مشکل ہے۔

سلام بھائی: آپ کو سب سے برا کیا لگتا ہے؟

ابا جی: مجھے سب سے برا سلسلے میں اختلاف لگتا ہے۔

ایک صاحب نے ابا جی سے کہا کہ ہمارے انچارج صاحب ہیں، انہوں نے مجھ سے یہ بات کی۔

ابا جی: آپ سے انچارج صاحب نے کچھ کہا آپ کو برا لگا ؟

انہوں نے کہا کہ جی بابا جی مجھے بہت برا لگا۔

ابا جی: آپ یہاں کیوں آئے ہیں؟

انہوں نے کہا کہ میں آپ کے لئے آیا ہوں ۔

ابا جی: تو میرے لئے معاف کر دیں،  ان کو ۔

انہوں نے کہا کہ میں آپ کی بات سمجھ گیا۔

ابا جی: افسوس کی بات یہ ہے کہ آپ نے فوکس انچارج کو کیا۔ کاش کہ آپ فوکس مجھے کرتے۔ بات یہ ہے کہ آپ سیکھنے آئے ہیں ۔ آپ میرے لئے آئے ہیں ۔ آپ میرے لئے اس لئے آئے ہیں کہ آپ حضور کی بارگاہ میں حاضر ہونا چاہتے ہیں ۔ اللہ تعالی کا علم حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ تو یہ جو آپ نے شکایت کی اصل میں یہ آپ کی اپنی اہمیت ہے۔ آپ کی انا آپ کے سامنے کھڑی ہو گئی کہ صاحب انہوں نے مجھے برا کہا۔ اگر آپ کے ذہن میں خیال آتا کہ میں اس انا کے لئے تو آیا تھا۔ تو کیا ہوتا ؟ آپ کی اصلاح ہوتی اور آپ درگزر کرتے۔ اور آپ کو ایک نام مل جاتا۔ آپ کا درجہ بڑھ جاتا۔

اباجی: جتنا بڑا درگزر کا درجہ ہے اتنا بڑا کسی چیز کا درجہ نہیں ۔

جب آپ درگزر کرتے ہیں، آپ اپنے گھر میں درگزر کرتے ہیں ۔ اپنے احباب میں درگزر کرتے ہیں اور سلسلہ کے بہن بھائیوں میں درگزر کرتے ہیں تو اصل میں آپ تربیت حاصل کر رہے ہوتے ہیں ۔ آپ اپنے مقام کو بلند کر رہے ہوتے ہیں ۔ آپ آگے والی کلاس میں جا رہے ہوتے ہیں ۔

Loading