Daily Roshni News

ساس ماں اور بیٹی بہو بن جائے تو گھر جنت ہو جائے!

ساس ماں اور بیٹی بہو بن جائے تو گھر جنت ہو جائے!

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ) حقیقتا یہ لڑائی ساس سے بہو کی نہیں یا بہو سے ساس کی نہیں بلکہ یہ ایک عورت کی عورت سے لڑائی ہے کیونکہ یہ عورت کے ہی مختلف روپ ہیں جسے کبھی وہ بناتی اور کبھی بگاڑتی ہے۔

وقت گزر گیا، زمانے بدل گئے،ترقیاں ہوئیں لوگ ماڈرن ہوئے لیکن  کسی نا کسی معاملے میں ہم آج بھی اتنے  ایک ہی بیک ورڈ ہیں جتنے کہ تیس پینتیس سال پہلے تھے۔ ہم نے معاشی ترقی کی،صنعتی ترقی کی لیکن آج بھی کہیں کچھ رشتوں میں ہم کم ظرفی کا مظاہرہ کر جاتے ہیں۔ اتنی ترقی کے باوجود آج بھی ہمارے درمیان کچھ رشتے ایسے موجود ہیں جنہیں برداشت کرنے میں کم ظرفی د کھا جاتے ہیں۔

کم ظرفی والے ان رشتوں میں ساس اور بہو کا رشتہ سر فہرست ہے۔ کتنے موسم بدل گئے ہیں لیکن اس رشتے کا نٹ کھٹ اتار چڑھاؤ آج بھی ویسا ہی ہے۔ کہتے ہیں کہ انسان کی عادات بدل جاتی ہیں لیکن فطرت تمام عمر نہیں بدلتی۔ کہا جاتا ہے کہ بات بہ بات ٹوکنا ساس کی فطرت ہوتی ہے اور اس کی ہر بات کو خواہ اچھی ہو یا بری اسے سنی ان سنی کرنا بہو کی فطرت ہے۔

ساس اور بہو کا رشتہ کہنے میں جتنا خوبصورت ہے۔ بعض اوقات اتنی ہی اس رشتے میں کڑواہٹ بھی نظر آتی ہے۔ ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا کہ ساس ہی غلط ہو۔ وہ ہی ظالم ہو، کبھی بہو بھی غلط ہو سکتی ہے۔ بلکہ کئی بار بہ غلط ہوتی بھی ہے۔ بہو کو نئے گھر میں اور نئے ماحول میں خود کو ڈھالنے کے لیے کچھ وقت چاہیے ہوتا ہے اور اس کٹھن وقت میں اسے شوہر کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ ضرورت ساس کی ہوتی ہے لیکن اس سمجھنے سمجھانے کے وقت میں ہی دونوں رشتے اپنی اپنی ذات میں سمٹ کر ایک ہونے کی بجائے الگ الگ محاذ بنالیتے ہیں۔ اس دور میں ساس کا فرض ہوتا ہے کہ بہو کو اپنے خاندان اور گھر کے اطوار اچھے انداز سے سمجھائے جبکہ بہو کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اس گھر کے اطوار کو اپنانے کی کوشش کرے لیکن ہو تا یوں ہے کہ ساس اپنا حق سمجھانے لگتی ہے اور بہو اپنا فرض پورا کرنے پر آمادہ نہیں۔ اک سرد جنگ کا آغاز اس وقت ہوتا ہے۔ جب بہو اپنا لائحہ عمل گھر کے نظام پر مسلط کرتی ہے اور ساس اپنے انداز و اطوار کو زندہ رکھنا چاہتی ہے لیکن بہو اپنا مقام بھول کر ساس کے بارے میں غلط قیاس آرائیاں کرنے لگتی ہے اور ساس اپنی بہو کو بد تہذیب اور ڈھیٹ کا خطاب دینے لگتی ہے۔ ایسے میں ہمیشہ ساس کو ہی کیوں غلط سمجھا جاتا ہے ؟ سارے قصور اس کے حساب میں کیوں لکھ دیے جاتے ہیں …. ؟ بہو کو کیوں بیچاری کا لقب دے دیا جاتا ہے….؟ اس کی غلطیاں کیوں نظر انداز کر کے ساس کو ”ظالم” کے روپ میں پیش کر دیا جاتا ہے…..؟

میرا نہیں خیال کے اس بات سے کوئی بھی لڑکی انکار کرے گی کہ ماں باپ کے گھر سے رخصت ہوتے ہوئے جہاں ایک نئے اور اپنے گھر کا ارمان اس کے دل میں ہوتا ہے وہیں اس کے دل و دماغ میں یہ بات بھی ضرور ہوتی ہے کہ اس کے ساس اور سسر اس کے ماں باپ نہیں بلکہ صرف ساس اور سسر ہیں۔ یہی ایک بات اسے ایک بہو سے بیٹی بننے نہیں دیتی۔ میکے کی ایک اچھی بیٹی سسرال میں صرف ایک بہو کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے جب ایک لڑکی خود کو ایک بہو کہلوانے کے بجائے بیٹی کہلوانے میں دلچسپی لے تو شاید اس رشتے میں کڑواہٹ پید اہی نہ ہو۔

بعض لڑکیوں کا ایک وطیرہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی بات خواہ اچھی ہو یا بری اگر ساس کہے گی تو یہ برا منائیں گی۔ اس کی بات کی نفی کریں گی لیکن اگر وہی بات ماں کہے گی تو اسے دل سے قبول کریں کی۔ چاہے اس کا طریقہ کار ساس سے بھی زیادہ براہو لیکن چونکہ وہ بات اپنی ماں نے کہی ہے اس لیے وہ اچھی لگے گی۔ گھر میں بہنیں آئیں گی تو سارا دن کچن میں رہ کر بھی تھکاوٹ نہیں ہوگی لیکن اگر نندیں دو سے تین گھنٹے کے لیے بھی آئیں گی تو بجٹ خراب ہو جاتا ہے تھک جاتی ہیں۔ جبکہ ساس شکایت کرے تو وہ غلط اور ظالم بن جاتی ہے۔ اگر بہو ایک اچھی چیز اپنی بہن کے لیے اور ایک کم تر چیز نند کے لیے خریدے گی تو بیوی کی ہاں میں ہاں ملانے والا شوہر با آسانی اس بات کو ہضم کرے گا لیکن اگر یہی حرکت ساس اپنی بہو اور بیٹی کے در میان کرے گی تو بہو کو پسند نہیں آئے گا۔ یہ کہنا بے جانہ ہو گا کہ حقیقتا یہ لڑائی ساس سے بہو کی نہیں یا بہو سے ساس کی نہیں بلکہ یہ ایک عورت کی عورت سے لڑائی ہے کیونکہ یہ عورت کے ہی مختلف روپ ہیں جسے کبھی وہ بناتی اور کبھی بگاڑتی ہے۔ ایک عورت ہے جو چاہے تو ساس یا بہو بن کے گھر بگاڑ دے یا چاہے تو سنوار دے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ کل کی نوجوان لڑکی اتنی سیانی کیسے ہو جاتی ہے کہ وہ صرف اپنے مفاد کے فیصلے کرنے لگتی ہے۔ ایک شفاف سلیٹ پر اتنی زیادہ نفرتیں کیسے لکھی جاتی ہے۔ سسرالی رشتے داروں کے خلاف اتنی کڑواہٹیں کہاں سے آجاتی ہیں۔ رشتے تو رشتے ہوتے ہیں چاہے شوہر کے ہوں یا بہو کے پھر ان کے درمیان ناختم ہونے والا فرق کہاں سے آجاتا ہے….؟ وہ رشتے جو ماں کے گھر ایک بیٹی کے لیے پیارے ہوتے ہیں سرال میں آکے ویسے ہی رشتے بہو بن کے نا پسندیدہ کیوں ہو جاتے ہیں ….؟

ان تفرقات سے گھر تو خراب ہو ہی جاتے ہیں پھر چاہے اس کی ذمہ دار ایک بہو ہو یا ساس لیکن حقیقت یہی ہے کہ عموما ساس ہی ظالم کہلاتی ہے۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ اگر کوئی ساس بہو سے ماں جیسا سلوک کرے تو اسے سراہنے کے بچائے کچھ لوگ اسے ڈرامہ قرار دیتے ہیں۔ یہ زندگی مختصر سی ہے، اس میں نفرتیں بھریں گے تو بھی ہم نے گزارنی ہے محبتیں اور سکون ہو گا تو بھی ہم نے ہی گزارنی ہے، تو پھر کیا یہ ضروری ہے کہ خود سے وابستہ رشتوں کو دکھ دیےجائیں۔ اپنے دل کے سکون کی خاطر گھر کو بے سکون کر دیا جائے۔

خود کو سسرالی رشتوں کی نظر سے دیکھنے کے بجائے صرف ایک مرتبہ خود کو ایک پیار بانٹنے والی عورت کی نظر سے دیکھیں تو سبھی رشتے اپنے اپنے دائروں میں بہت اچھے لگنے لگیں گے۔ ساس کوئی غلط بات کہے تو بہو کا فرض ہے کہ اسے ماں سمجھ کر اس کی غلط بات کو نظر انداز کر دے۔ جب کوئی بہو اپنے فرائض سے چشم پوشی کرے تو یہ ساس کا فرض ہے کہ ایک بیٹی جان کے اسے معاف کر دے، اس کی غلطیوں کی پردہ پوشی کرے۔ بات صرف سمجھنے کی ہے۔ سمجھو تو یہ رشتے دل کے بہت قریب ہیں نظر انداز کرو تو فاصلے بہت۔ تو جب تمام عمر ساتھ نبھانا ہے، تو پھر انہیں دل سے اپنا لینے میں کیا برائی ہے۔ ایک مرتبہ دل سے دونوں ایک دوسرے کو قبول کر لیں تو سبھی رشتے اپنے دل کے قریب محسوس ہوں گے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مئی 2019

Loading