Daily Roshni News

خدا کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔۔۔ تحریر۔۔۔لیوٹالسٹائی۔۔۔قسط نمبر3

خدا کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں

تحریر۔۔۔لیوٹالسٹائی

(قسط نمبر3)

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ خدا کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔۔۔ تحریر۔۔۔لیوٹالسٹائی) کے سامنے گھوم رہے تھے۔ اسے اپنی بیوی کا چہرہ یاد آرہا تھا جب وہ اسے چھوڑ کر میلے کی طرف روانہ ہوا تھا۔اس نے اس کو ایسے یاد کیا جیسے کہ وہ وہاں موجود ہو؛اس کی آنکھیں اور اس کا چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے آگیا اور اس کی ہنسی کی خوبصورت آواز اس کے کانوں میں گونجنے لگی۔پھر اس نے اپنے بچوں کو یاد کیا، جو اس وقت کافی چھوٹے تھے، ایک جس نے اپنے برابر کا چوغہ پہنا تھا اور ایک وہ جو ابھی ماں کی گود میں ہی تھا۔۔ان سب کے بعد اس نے اپنے آپ کاوہ وقت یاد کیا جب وہ ایک بھرپور نوجوان تھا –طاقت ور اور ہنس مکھ۔ اس کو وہ وقت یاد آیا جب وہ آخری بار اس پیڑ کے نیچے بیٹھے گٹار بجا رہا تھا، اور یہ کہ وہ دنیا کی پریشانیوں سے کتنا آزاد تھا۔ ۔ وہ یہ سب یاد کر کے اتنا رنجیدہ ہو گیا کہ وہ اپنے آپ کو مارنے کی نوبت تک آپہنچا۔

“اور یہ سب اس ذلیل کا کیا دھرا ہے۔”اکسیونوف نے سوچا۔ یہ سب سوچ کر مکر کے خلاف اس کاغصہ بہت بڑھ گیا تھا جبکہ وہ خود بھی جانتا تھا کہ غصہ کو دبادینا ہی سب سے اہم بات ہے۔ وہ پوری رات عبادت کرتا رہا مگر اس کو سکون نہیں ملا۔ اگلا پورا دن ، اس نے نہ تو مکر کے پاس جانا مناسب سمجھا اور نہ اس کی طرف دیکھنا۔ دو ہفتے ایسے ہی بیت گئے۔ اکسیونوف رات میں سو بھی نہیں پاتا، وہ بس دکھی ہو جاتا کیونکہ اس کو یہ نہیں سمجھ آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ ایک رات جب وہ جیل میں ٹہل رہا تھا ، اچانک اسے ایسا لگا جیسے زمین پر سے کوئی چیز ہلی اور وہاں سے کوئی قیدی نکلا۔ وہ رکا اور وہا ں غور سے دیکھنے لگا۔ وہ مکر تھا، اس کا چہرا سہما ہوا تھا۔ اکسیونوف اس کی طرف سے مڑا ہی تھا کہ مکر نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اس کو بتایا کہ اس نے ایک سرنگ بنائی ہے، جو روڈ پر نکلتی ہے۔

“تم بس چپ رہنا بڈھے ، اس طرح تم بھی باہر نکل سکوگے۔ اگر تم نے کچھ بھی کہا تو وہ مجھے مار دیں گے مگر اس سے پہلے میں تمہیں مار دوں گا۔ “

اکسیونوف غصے سے کانپنے لگا۔ اس نے اپنا ہاتھ مکر کے ہاتھ سے جھٹکا اور اس سے کہنے لگا۔

“مجھے جیل سے بھاگنے کی کوئی خواہش نہیں ہے اور تمہیں مجھے مار نے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، تم نے مجھے بہت پہلے ہی مار دیا تھا۔ تمہارے بارے میں میں کچھ کروں نہ کروں ۔۔۔۔خدا ضرور کرے گا۔ “

اگلے دن جب سارے قیدی اپنے اپنے کاموں میں مشغول تھے تب کسی سپاہی نے یہ محسوس کیا کہ کسی ایک قیدی نے کوئی سرنگ بنائی ہے، کیونکہ اس کا پیر ایک گڈھے پر پڑا تھا۔ اس قیدی کی پورے جیل میں تلاش شروع ہوئی اور ساتھ ہی ساتھ سرنگ میں بھی ۔ خود گورنر نے آکر سارے قیدیوں سےتفتیش کی۔سب نے صرف یہ ہی کہا کہ ان کو کچھ نہیں معلوم ۔ جن کو پتا تھا ، انہوں نے بھی انکار کیا کیونکہ ان کو پتا تھا کہ اگر بتا دیا گیا تومکر سیمیونچ کو موت تک مل سکتی ہے۔ آخر میں گورنر اکسیونوف کی طرف بڑھا اور چونکہ وہ اس کو ایک سچا آدمی مانتا تھا اس لیے اس سے بھی اس بارے میں پوچھا۔

مکر سیمیونچ اپنی جگہ پر بت کی طرح کھڑا تھا، اس نے اپنی آنکھیں بھی اکسیونوف کی طرف نہیں کیں۔ اکسیونف کے ہاتھ پیراور ہونٹ کانپنے لگے اور وہ کئی دیر تک کچھ نہ کہہ سکا۔ اس نے سوچا۔

“آخر میں اس آدمی کی زندگی کو کیوں بچاؤں جس نے میری پوری زندگی برباد کر دی؟اسے اپنے گناہوں کی سزا ملنی چاہیے۔لیکن اگر میں گورنر کو سب بتا دوں تو وہ اس کو موت دے دیگا ، اور پھر کیا پتہ شاید میں ہی غلط ہوں، اور پھر اس سے میرا کیا فائدہ ہوگا؟”

“تو بابا، ہمیں سچ بتاؤ ، یہ سرنگ کس نے کھودی؟” گورنر نے اکسیونوف سے پھر سوال کیا۔

اکسیونوف کی نظر مکر کی طرف گئی اور گورنر کی طرف دیکھ کر اس نے کہا۔”میں کچھ نہیں کہہ سکتا ، یورآنر۔ خدا نہیں چاہتا کہ میں کچھ کہوں ، میں آپ کے سامنے ہوں اور اس خاموشی کے بدلے میں آپ میرے ساتھ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔”

خیر یہ بات تو گورنر کو بھی پتا تھی کہ وہ کتنی بھی کوشش کر لے اکسیونوف سے اصل بات نہیں معلوم کر پائے گا ، الغرض اس نے معاملہ رفع دفع کر دیا۔ اس رات جب اکسیونوف اپنے بستر پر لیٹ کر سونے ہی والا تھا، تبھی کوئی دبے پاؤں اس کے پاس آیا اور اس کے بستر پر بیٹھ گیا۔ اکسیونوف نے اپنی آنکھوں سے جب غور کرا تو دیکھا کہ وہ مکر تھا۔

“تمہیں مجھ سے اور کیا چاہیئے؟”اکسیونوف نے کہا”اب یہاں کیوں آئے ہو؟”

مکر سیمیونچ چپ بیٹھا رہا۔ تبھی اکسیونوف اٹھ بیٹھا اور بولا۔ “تمہیں کیا چاہیئے، جاؤ یہاں سے ورنہ میں سپاہیوں کو بلا لوں گا۔”

مکر اکسیونوف کی طرف جھکا اور اس کے کان میں بولا۔”آئیوان ، مجھے معاف کر دو۔”

“کس لئے؟” اکسیونوف نے پوچھا۔

“وہ میں ہی تھا جس نے اس سوداگر کا قتل کیا تھا اور وہ چاقو تمہارے سامان میں چھپا دیا تھا۔ میں تو تم کو بھی مارنے والا تھا، مگر پھر میں نے باہر سے کوئی آواز سنی توچاقو تمہارے سامان میں چھپا کر وہاں سے بھاگ گیا۔”

اکسیونوف خاموش تھا ، اسے بالکل سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب کیا کہے۔ مکر سیمیونچ بستر پر سے ہٹا اور زمین پر آکر اکسیونوف سے بولا۔

“مجھے معاف کر دو، خدا کے لئے مجھے معاف کردو، میں یہ بات گورنر صاحب کو بتا دونگا کہ وہ قتل میں نے کیا تھا اور پھر تم آزاد ہو گے۔ “

“تمہارے لیے یہ کہنا آسان ہے”اکسیونوف نے کہا”مگر میں نے یہاں اپنے چھبیس سال کاٹ دیے ہیں، میں اب کہاں جاؤں گا، میرے بیوی مر گئ اور میرے بچے مجھے بھول چکے ہیں،میرے پاس اب جانے کے لئے کوئی جگہ نہیں بچی۔”

مکر اٹھا نہیں بلکہ اس نے اپنا سر زمین میں مارا اور پھر کہنے لگا۔

“آیئوان، مجھے معاف کر دو، ” وہ چیخا”کوڑے سے پٹنا اتنا دردناک نہیں ہوتا جتنا کہ مجھے تم کو دیکھ کر دکھ ہو رہا ہے۔ اور ابھی بھی تمہیں مجھ پر ترس ہے کہ جو تم کسی کو بتاتے نہیں۔عیسی کے نام پر مجھے معاف کر دو، میں کتنا نیچ ہوں”اس نے کہا اور رونے لگا۔

جب اکسیونوف نے اس کو روتا دیکھا تو اس کی بھی آنکھوں سے آنسو آگئے۔ “خدا تمہیں معا ف کرے، شاید میں تم سے بھی سو گنا برا تھا۔” پھر یہ الفاظ کہ کر اس کا دل ہلکا ہوا اور اس کے گھر جانے کی خواہش مری۔ اس کے دل میں اب جیل چھوڑ کر جانے کی کوئی خواہش نہیں تھی، بلکہ وہ تو اب اپنے اخری وقت کے انتظار میں تھا۔

ان سب باتوں کو دور رکھ کر مکر نے گورنر کو سب سچ بتا دیا۔ مگر جب تک اکسیونوف کی رہائی کے آرڈر آئے، وہ مر چکا تھا۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ  مئی 2018

Loading