Daily Roshni News

مولانا روم کا مقصد تربیتِ انسان کرنا ہے ،راہِ حق کے مسافر کی تربیت کرنا

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )مولانا روم کا مقصد تربیتِ انسان کرنا ہے ،راہِ حق کے مسافر کی تربیت کرنا اور متلاشیانِ حق کی دلجوئی کرنا ہے اور عاشقانِ علم و معرفت کی داد رسی کرنا ہے ۔ مولانا روم نے کسی نہ کسی طریقے سے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ ایک سالک اور صوفی درویش کو مکمل راہنمائی فراہم ہو سکے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہر کوئی اپنا مقدر حاصل کرتا ہے ۔میں نے یہ خود دیکھا ہے کہ ہزار ہا لوگوں کو دل کی باتیں سمجھائیں ،مگر پھر بھی سمجھنے والے چند ایک ہی ثابت ہوئے کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ :

   ؎  یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے 

    جسے چاہے اُ  س کو نواز دے یہ درِ حبیب ؐ  کی بات ہے

 یہ حبیب  صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمْ  کی بات یعنی یار کی بات ہے، کہ یار کی موج کس کس کو سیراب کرتی ہے۔ بہرحال مولانا روم نے اس واقعہ میں بہت عظیم الشان تمثیل پیش کی ہے ۔اگر کچھ عقل ہو تو انسان بہت کچھ سیکھ سکتا ہے، بالخصوص طالبانِ حق کے لیے اس میں بہت بڑا درس موجود ہے ۔

 اس واقعہ پر ایک نظر ہم ڈالتے ہیں کہ بادشاہ کا شکار کو نکلنا اور ایک کنیز کا بادشاہ کو پسند آنا ،پھر اُسے خریدنا اور اُسکا بادشاہ کی طرف متوجہ نہ ہونا جیسا کہ وہ متوقع تھا ہر ممکن اُسکا کوشش کرنا مگر کام اُس کے برخلاف ہونا اور ناکام ہونا، پھراُس کنیز کا بیمار ہونا پھر تمام طبیبوں کا، حکیموں کا، ڈاکٹروں کاعاجز آجانا، اس میں بڑی حکمت ہے کہ جب اللہ پاک کسی عظیم راز سے پردہ اُٹھانا چاہتاہے تو بعض اوقات یہ دیکھا گیا ہے کہ ظاہری اسباب جواب دے جاتے ہیں۔

 اب میں یہاں طالبینِ حق سے یہ کہنا چاہوں گا کہ جب تم اپنی منزل کی جانب چلتے ہو، رات دن مشاہدہ کرتے ہو، مشقت اُٹھاتے ہو تو بعض اوقات ایسے باطنی عقدے ہوتے ہیں کہ آپ کی تمام کوششیں ناکام ہو جاتی ہیں یوں لگتاہے کہ ہر طرف اندھیرا ہے بظاہر کوئی سبب نظر نہیں آتا، وظائف بھی کیے جاتے ہیں مگر تصور پختہ نہیں ہوتا اس وجہ سے یہ سارے مسائل راہ ِفقر کے مسافر کو درپیش ہوا کرتے ہیں ۔ میں نے دیکھا ہے کہ بعض طالبِ حق ایسے حالات میں حوصلہ شکنی کا مظاہرہ کرتے ہیں اُن کے حوصلے ٹوٹ جاتے ہیں اور کی ہوئی ساری محنت ضائع کر بیٹھتے ہیں ۔ ایسی صورتحال میں کرنا یہ چاہیے کہ جب کوئی بات سمجھ میں نہ آرہی ہو کوئی داد، کوئی کمک نہ پہنچ رہی ہوتو اُس وقت میرا ایک ہی سبق ہے تمام طالبانِ حق کے لیے کہ وہ یکسُو ہو جائیں، رکاوٹیں بہت آئیں گی مگر پھر بھی یکسُو ہونا پڑے گا اس کے بغیر خلاصی نہیں ہوگی بلکہ انسان اِس دلدل میں دھنستا چلا جائے گا اور جب یکسُوئی میں طاق ہوجائے گا یعنی تصویرِ شیخ اُس پر مکمل طاری ہو جائے گی اُس وقت وہ اِس عذاب سے خلاصی پاجائے گا ۔

  اِس واقعہ کا یہ بھی بہت بڑا درس ہے کہ جب وہ ڈاکٹروں، حکیموں سے مایوس ہوا تو وہ دوڑتا ہوا چلا گیا مسجد کی جانب اور سجدے میں جاکر رب العالمین کی طرف یکسُو ہوا اور جب وہ یکسُو ہوا تو خواب میں دیکھتا ہے، آوازِ غیبی آئی بشارت ہو تمھاری دُعا قبول ہوئی اگر کل کوئی اجنبی شخص آئے تو وہ ہماری طرف سے ہے جب وہ آئے تو وہ ماہر طبیب ہے اُسکو سچا جاننا۔ بادشاہ کے جب تمام آسرے ٹوٹے تو اِس طرح اللہ کی طرف سے اشارہ ہوا تو دوسرے دن اِسی طرح انتظار میں تھا کہ وہ غیبی مہمان کب آئے گا، المختصر وہ بندہ آگیا ۔ یہاں پر اب میں تھوڑا کلام کرنا چاہوں گا ۔

 دیکھنا اب یہ ہے کہ بادشاہ اللہ کی بارگاہ میں گیا اور مدد طلب کی، تو جب اللہ نے مدد کرنا چاہی تو اپنے بندے کو بھیج دیا ،یہ اللہ کی سنت ہے کہ جب بھی اُس نے کسی کی مدد کی تو اپنے بندے کو بھیج دیا۔تو اُس نے اپنا بندہ(ولی)بھیجا اور اُس سے بادشاہ کی مشکل حل ہوئی ۔ تو میں یہ کہتا ہوں کہ طالبانِ حق کو چاہیے کہ جب وہ پریشان حال ہوں تو یکسُو ہو جائیں پھر اِسی طرح کی تسلی رب العالمین سے مل جائے گی تو طالبانِ حق چونکہ یقینا کسی شیخِ کامل کے پیر و کار ہوتے ہیں جب طالبانِ حق اُن کی پیروی میں چلتے ہیں تو وہ پُر تاثیر نگاہ اُن کے دلوں کو منور کر دیتی ہے ۔

 تو پھر وہ طبیب وہ جو اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا شخص (مہمان )تشریف فرما ہوا اور اُس نے بادشاہ سے کہا کہ مریض کو تنہا کر دیا جائے میں تنہائی میں اِسکا علاج کروں گا۔ یہ بھی درویشوں کے لیے بہت بڑا سبق ہے کہ کسی بھی طالبِ حق کا تنہائی میں علاج ممکن ہے اور مردِ درویش کا یہ طریقہ ہوا کرتا ہے کہ وہ طالبانِ خاص کو تنہائی میں تعلیم عطا فرمایا کرتے ہیں اور وہ تعلیم ہیرے جواہرات سے زیادہ اہمیت کی حامل ہوا کرتی ہے ۔ اب اُس مردِ درویش نے ،اُس طبیب نے، اُس کنیز کی نبض پہ ہاتھ رکھا جیسا کہ مولانا روم نے اِس حکایت میں لکھا ہے ،پھر مختلف شہروں کے نام لینا شروع کیے ،جب اُس نے ثمرقند کانام لیا تو کنیز کے دل کی دھڑکن نے طبیبِ خاص کے دل کو بتا دیا کہ اِس شہر میں کوئی معاملہ ہے پھر اُس شہر ثمرقند کے محلّوں کے نام لئے ،جب محلّے کانام لیا تو پہچان لیا کہ یہ ثمرقند شہر کاخاص محلہ ہے ،پھر اُس نے مختلف پیشوں کے نام لئے جب صراف کانام لیا تو پھر دل کی دھڑکن نے آواز دی کہ اِدھر بھی معاملہ کچھ اور ہے۔

 طبیب دانا تھا اُس نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ میں نے بیماری کو پکڑلیا ہے اِس کی بیماری جسمانی نہیں روحانی ہے۔ اُس نے بتایا کہ ثمر قند شہرکا فلاں محلہ ہے اور وہاں سنار ہے، اُسکے عشق میں یہ کنیز مبتلا ہے۔اب ایسا کیا جائے کہ سونا چاندی دے کر سنار کو گھر پر کام میں لگایا جائے اور کھڑکی کھول دی جائے تاکہ سامنے وہ دیکھتی رہے ۔ المختصر وہ دیکھتی رہی اور ٹھیک ہونے لگی کچھ مہینے کے اندر وہ ہری بھری ہو گئی اور بچ گئی ۔ پھر طبیب نے کہا اب میں سُنار کا اگلا علاج کروں گا ماہر طبیب نے اُسے کچھ ایسا کھلایا کہ وہ نحیف در نحیف اور کمزورہوتا چلا گیا جوں جوں وہ کمزور ہوتا گیا اُسکا حسن اور نورانیت جاتی رہی جیسے جیسے وہ کمزور ہوتا گیا کنیز کی توجہ اس سے ہٹتی گئی۔ چونکہ یہ عشق ظاہری تھا تو جب حسن اور نورانیت ختم ہو گئی ،خو بصورتی ختم ہو گئی تو کنیز کی توجہ بھی سُنار سے ہٹتی گئی اگر اِس عشق کا تعلق حقیقت سے ہوتا تو ایسی کوئی بات ہو ہی نہیں سکتی تھی ۔تو جوں جوں سُنار کمزور ہوا بالآخر وہ مر گیا پہلے ہی کنیز اُس سے ہٹ چکی تھی اب بادشاہ کی طرف مکمل راغب ہو گئی ۔اس واقعہ سے بہت بڑا درس ملتا ہے طالبانِ حق کے لیے جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ مولانا روم نے بہت اچھی تمثیل دی ہے حقیقت کو سمجھانے کی خاطر۔

 دراصل بادشاہ روح ہے وہ جو بادشاہ کا ذکر ہے اس بادشاہ سے مراد انسان کی روح ہے اور کنیز سے مراد انسان کا نفس ہے اور ُسنار لڑکے سے مراد ہوا و ہوس ،حرصِ دنیا ہے اور طبیب جو تھا، وہ مہمان جو اللہ کی طرف سے آیا تھا اس سے مراد شیخِ کامل ہے ۔کنیز کا بادشاہ کی طرف میلان نہیں تھا چونکہ وہ سُنار میں مبتلا تھی اُسکا علاج کیا ولیٔ کامل نے ، وہ جو نفس تھا وہ روح کی طرف متوجہ نہیں ہوتا تھا وہ جو بادشاہ یعنی انسانی روح تھی اُسکی طرف کنیز یعنی وہ نفس راغب نہیں ہوتا تھا وہ نفس مبتلا تھا سُنار یعنی دنیا و ہوس میں ۔وہ طبیب یعنی پیرِ کامل جب ملا تو اُس نے پہلے مرض ڈھونڈی پھر علاج ڈھونڈا پھر اُس مرض سے شفاملی۔

 مراد یہ کہ جب تک انسان کا نفس دنیا کی ہوا و ہوس میں مبتلا رہتاہے تب تک وہ روح کی طرف راغب نہیں ہوتا جب پیرِ کامل ملتاہے تو وہ نفس کی مرمت کرتا ہے۔ جب نفس کی مرمت ہوئی یعنی وہ کنیز اُس سُنار میں پھنسی ہوئی تھی جتنی بھی نفس میں بیماریاں تھیں حسد، کینہ ،بغض، عناد ،ہوس ، حرص،طلبِ دنیا خواہشِ نفس، مرشدِ کامل نے اُن تمام بیماریوں کا علاج ،اُن تمام علت ہائے کا علاج کر دیا، اُنہیں مار دیا تو اب نفس ،نفسِ مطمئنہ کی طرف راغب ہوا یعنی روح کی طرف راغب ہوا ۔اب نفس اور روح جب ایک ہوئے تو بات بن گئی تو سارا کمال طبیبِ خاص یعنی پیرِکامل کا تھا کہ مرید، طالبِ حق کے نفس کی بیماریوں کا علاج کر کے اُسے نفسِ مطمئنہ کی طرف رواں دواں کیا اور اِس طرح نفس اور روح مل کر بحرِ وحدت میں غرق ہو جاتے ہیں اور انسان کی انّائے نفسی ختم ہو جاتی ہے اور وہ مقامِ انّا پر پہنچ جاتا ہے اور بحرِ وحدت میں غوطہ زن ہو جاتا ہے۔ اس میں یہ خاص بات ہے کہ کوئی فقیر، صاحبِ طریقت ،صاحبِ معرفت ، صاحبِ حقیقت نہیں ہو سکتا جب تک کہ اُس کے نفس کا علاج نہ ہو جائے ،طالبِ حق کے لئے میں یہی کہوں گا کہ  :

      خود  کی  نفی کر  لو  اثبات  میں  خدا ہو گا

      بزمِ  لامکاں  ہو گی  رہبر  مصطفٰی ﷺ  ہو گا

      دنیا  میں  نظر  آئے  ہر سُو  رخِ   یار  محموؔد

     آنکھ  کھلے گی  باطن  کی  خدا  جلوہ نما ہو گا

                                                                                          {   مقامِ محمود  }

 اس پوری حکایت کو بیان کرنے اور تشریح کرنے کے بعد اس حکایت کے اندر جو خاص اشعار ہیں جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ چیدہ چیدہ اشعار کو بھی زیرِ بحث لائیں گے اور اُنکی تشریح کرنے کی بھی کوشش کریں گے تو اُسی حوالے سے میں یہ دیکھ رہا ہوں چونکہ ہر شعر ہی جیسا کہ میں نے پہلے کہا پُر از حکمت ہے مگر یہ جو شعر میرے سامنے ہے اس میں مو لا نا روم نے طالبانِ حق کے لیے خاص خوشخبری بھی دی ہے اور روشنی بھی دکھائی ہے کہ روحا نیت ہی اصل راہ ہے اور اس اصل راہ پر چلتے چلتے ایک دن مقصد تک پہنچ جائیں گے ۔!!!!

Loading