Daily Roshni News

اپنے بچوں کے مزاج کو سمجھئے۔۔۔ماؤں کے لئے خصوصی تحریر۔۔(قسط نمبر1)

اپنے بچوں کے مزاج کو سمجھئے

ماؤں کے لئے خصوصی تحریر۔۔

(قسط نمبر1)

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ اپنے بچوں کے مزاج کو سمجھئے)میرے ابو بہت گرم چائے پیتے ہیں،  اتنی گرم کہ کپ میں انڈیلتے ہی غٹاغٹ پی جاتے ہیں۔’’

تین بچے اپنے کلاس روم میں بیٹھے فری پیریڈ کا فائدہ اٹھا کر گپیں ہانک رہے تھے۔ پہلے بچے کا یہ جملہ سن کر دوسرا فوراً بولا ‘‘یہ تو کچھ بھی نہیں میرے ابو تو چائے کپ میں نکالنے کی زحمت بھی نہیں کرتے بلکہ کیتلی سے ہی منہ لگا لیتے ہیں۔’’ اب تیسرے کی باری تھی جو ایک ایسا جواب سوچ رہا تھا کہ جو ان دونوں سے مختلف ہو، پھر اس نے برجستہ  کہا ‘‘ارے بھئی! میرے ابو سے زیادہ گرم چائے  کوئی نہیں پی سکتا’’ ،  ‘‘وہ کیسے….؟’’ دونوں بچوں نے بیک وقت پوچھا ‘‘کیونکہ میرے ابو چینی پتی کھا کر چولہے پر سے گرم پانی اٹھا کر اپنے منہ میں ڈال لیتے  ہیں….

یہ تو محض ایک لطیفہ ہے، لیکن اس سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ بچوں کے مزاج میں کس قدر انفرادیت ہوتی ہے۔ اکثر بچے ایسے چیزیں پسند کرتے ہیں جو دوسروں سے اچھی ہوں۔ مثلاً اگر بچے کے کسی دوست کی برتھ ڈے پارٹی ہو تو وہ چاہتا ہے کہ اس کے لیے بھی اس سے اچھی پارٹی دی جائے…. کسی دوست یا رشتے دار کے کوئی کپڑے یا جوتے پسند آجائیں تو وہ بھی اس سے اچھے کپڑے یا جوتے لینے کی فرمائش کرتا ہے، اسی طرح اگر کسی بات پر بچے کی تعریف ہوتی ہے تو وہ بھی چاہتا ہے کہ لوگ اس کی تعریف کریں۔ مختصر یہ کہ بچہ ایسی خواہشات رکھتا ہے جو کہ منفرد ہوں اور ایسی چیزیں حاصل کرنا چاہتا ہے جس کی سب تعریف کریں۔ ان  کے حصول کے لیے ہر بچہ مختلف اظہار کا استعمال کرتا ہے۔ اظہار کا یہ فرق بچے  کے مزاج کی وجہ سے ہے کیونکہ ہر بچے کا مزاج مختلف ہوتا ہے۔ بچوں کی تربیت کا یہ ایک اہم نکتہ ہے کہ والدین بچے کے مزاج  کو سمجھیں۔

بچے اپنے اپنے مزاج کے لحاظ سے شرارتی، چلبلے، باتونی، ضدی، ہٹ دھرم، معصوم، متجسس، ڈرپوک، تخیل پسند یا کم گو وغیرہ وغیرہ ہوسکتے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ ہر بچہ ان تمام رویوں کا اظہار مختلف اوقات میں کرتا ہے مثلاً کبھی وہ شرارت کرتا ہے، تو کبھی معصوم بن جاتا ہے، کبھی ضد کرکے اپنی کوئی بات منوا لیتا ہے  تو کبھی نرمی سے بات سمجھ کر مان لیتا ہے۔  اس لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ بچہ کا مزاج موقع اور ماحول کے لحاظ سے بدلتا رہتا ہے…. البتہ کوئی نہ کوئی مخصوص مزاج بچے کی طبیعت پر  اکثر غالب رہتا ہے۔

بچوں کی تربیت کے حوالے سے ان کے مزاج کو سمجھنے کی  بہت اہمیت ہے۔ بچوں کی تربیت اس طرح ہو کہ  انہیں علمی،  اخلاقی اور شعوری بالیدگی کے لیے  معلومات ان کے مزاج کی مناسبت سے فیڈ Feed کی جاتی رہیں۔ آئیے اب چند مختلف مزاج کے بچوں اور

 ان کی تربیت کے کچھ اصولوں پر روشنی ڈالتے ہیں۔

سائنس دان کھوجی بچے:

ایک بچے نے جیسے ہی جہاز میں لگا ہوا ایک بٹن آن کیا تو اس کے ہاتھ میں ہلکی سی لرزش ہوئی اور جہاز کی آواز سماعت سے ٹکرائی۔ اس نے جہاز زمین پر رکھا اور تالی بجا کر خوشی کا اظہار کیا۔ اب جہاز فرش پر ادھر ادھر اپنے مدھر میوزک کے ساتھ دوڑ  رہا تھا۔ دیوار سے ٹکرا کر خود ہی مڑ جاتا اور پھر اچانک رک کر پنکھے کی طرح گھومنا شروع کردیتا۔ بچہ یہ سب بڑے شوق سے دیکھ رہا تھا۔ اس کے اردگرد بیٹھے سب لوگ کبھی جہاز کو اور کبھی اسے دیکھتے رہے۔ پھر یہ معمول بن گیا کہ جب بھی بچہ روتا تو اس کے آگے یہ کھلونا رکھ دیا جاتا یوں وہ روتے روتے ہنسنا شروع کردیتا۔ ایک دن وہ بچہ اس روٹین سے بور ہوگیا…. 

ا س نے چلتے ہوئے جہاز کو فرش پر زور زور سے مارنا شروع کردیا  یہاں تک کہ وہ جہاز ٹوٹ گیا۔ شاید اس کے تجسس نے اسے یہ سوچنے پر مجبور کردیا تھا کہ یہ کھلونا آخر چلتا کیسے ہے، مڑتا کیوں ہے اور پھر رک کر پنکھے کی مانند کس طرح گھوم جاتا ہے….؟

اکثر بچوں میں ایسی عادات کا مشاہدہ کیا گیا ہے کہ اگر انہیں کھیلنے یا دل بہلانے کے لیے  کوئی کھلونا یا کوئی بھی چیز دی جائے تو کچھ دن تو اس سے کھیلتے ہیں۔ اس کے بعد  توڑ پھوڑ کر اس کا ستیاناس کردیتے ہیں۔ ایسا عموماً وہ بچے کرتے ہیں جن کے مزاج میں غصہ کا عنصر زیادہ ہو یا پھر وہ غور و فکر زیادہ کرتے ہیں۔

کبھی کبھی یہ غور و فکر یا تجسس شدید ہو جاتا ہے۔ ایسے بچوں میں  چیزوں کے اندرونی نظام کو جاننے کی خواہش بڑھ جاتی ہے۔ یہ تجسس بچوں کو  ہر چیز کے پیچھے چھپی ہوئی حقیقت جاننے پر اکساتا رہتا ہے۔

ایسے بچوں کی حوصلہ فزائی بہت ضروری ہے۔  انہیں نت نئی رنگ برنگی چیزیں لاکر دیں۔ دیکھا گیا ہے کہ ایسے بچے عموماً ایسے کارٹونز یا دیگر پروگرامز  پسند کرتے ہیں جن میں تخلیقی پہلو نمایاں ہو۔

انہیں سائنس فکشن فلموں کا بےچینی سے انتظار رہتا ہے۔ اپنی متجسس طبیعت کے باعث ایسے بچے  سوالات بھی بہت کرتے ہیں۔ ان کے سوالات کے جوابات اس طرح دیں کہ  بڑے ہونے پر  یہ ارتکاز توجہ کی عادت  اور متجسس مزاج ان کی صلاحیتوں کو ابھار سکے۔

ضدی بچے: ایسے بچے چاہتے ہیں کہ کوئی بھی خواہش ان کے منہ سے نکلنے کے بعد فوراً پوری کردی جائے۔ یہ رویہ اکثر والدین کے لیے بعض اوقات زحمت کا باعث بن جاتا ہے۔ والدین بچے کی کچھ  خواہشات کو تو پورا کرتے ہیں اور بعض کسی وجہ سے پوری نہیں کرپاتے۔ ایسے بچوں کی اگر کوئی خواہش پوری نہیں ہوتی تو وہ ضد کرتے ہیں، روتے ہیں، چیختے چلاتے ہیں، چیزیں توڑتے ہیں یا پھر ایک کونے میں بیٹھ کر ‘‘روں…. روں…. ری…. ری’’ کرتے رہتے ہیں۔ یہ پروگرام اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک ان کی خواہش پوری نہ کردی جائے۔ اکثر یہ بھی مشاہدہ میں آیا ہے کہ ایسے بچے جب روتے ہیں تو ان کی آنکھوں  میں آنسو کا ہلکا سا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ گویا بعض اوقات رونے کو وہ اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے بطور حربہ استعمال کرتے ہیں۔ ایسے بچوں کی یہ بھی خواہش ہوتی ہے کہ ہر ایک انہیں اہمیت دے یعنی جب وہ کہیں کہ ان کے ساتھ کھیلو تو سب ان کے ساتھ کھیلیں، انہیں باہر جانے کی خواہش ہو تو باہر لے کر جائیں۔ اگر یہ سب کچھ نہ ہو تو وہ مصنوعی خفگی کا اظہار کرتے ہیں یا رونا دھونا شروع کردیتے ہیں۔

بچوں میں ضد کو ختم کرنا اس لیے ضروری ہے  تاکہ وہ مستقبل کے چیلنجوں اور تلخ حقائق کا مردانہ وار سامنا کرسکیں۔ ضد کی  عادت پختہ ہوجائے تو شخصیت کے بگاڑ کا باعث بن سکتی ہے۔  دانش مندی کا تقاضہ تو یہی ہے کہ بچہ کی ہر ضد پوری نہ کی جائے، اس کے رونے یا مچلنے کی پرواہ نہ کی جائے، بچے کو جب اس بات کا یقین ہوجاتا ہے کہ رونے سے جو چیز وہ مانگتا ہے اسے نہیں ملے گی تو بالآخر وہ چپ ہوجائے گا۔ بچہ جب چپ ہوجائے تو پھر اس کی خواہش اگر وہ مناسب اور بےضرر ہو تو پوری کردیں۔ بچے کی ایسی معصوم خواہشات کی تکمیل  کرنا جن  سے ان کی شخصیت میں نکھار پیدا ہو ضروری ہے، لیکن اس رویے کی حوصلہ شکنی کرنا بھی ضروری ہے۔  جس سے ان کے ضدی  پن کی تسکین ہوتی ہو۔

فلسفی و محقق بچے:

اس قسم کے بچے ہر چیز اور ہر بات میں  سچ یا حقیقت جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے بچے اکثر خوشگوار حیرت  میں مبتلا کردیتے ہیں۔ ان کے سامنے کوئی بات کی جائے، اس کے بارے میں سوچتے ہیں اور حقائق جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔  ایسے بچے سیدھی سادی اور بامقصد گفتگو پسند کرتے ہیں۔  ایسے بچے بڑے  ہو کر اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے سب کو متاثر  کرسکتے ہیں۔ والدین، اساتذہ اور دیگر  عزیز و اقارب کے لیے ضروری ہے کہ ان کے اس مزاج کی حوصلہ افزای کرتے ہوئے ان کے لے بھی سائنس دان بچوں جیسا ماحول فراہم کریں تاکہ ان کی غور و فکر اور تحقیق  و جستجو کی صلاحیت کو جلا مل سکے۔

بزدل اور ڈرپوک بچے:دو سال سے پانچ سال تک کی عمر کے بعض بچوں۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مئی2021

Loading