Daily Roshni News

ملا احمد حلوائی

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )دنیا کے کچھ ہی علاقے کرکٹ پر اس قسم کے اثر کا دعویٰ کرسکتے ہیں حتیٰ کہ لاہور کے زمان پارک کے لوگ بھی نہیں ، 1960 کی دہائی کی ناظم آباد الیون کسی بھی بین الاقوامی ٹیسٹ ٹیم سے مقابلہ کرسکتی تھی۔

کھانے میں ناظم آبادی اپنے پرانی پسندیدہ چیزوں کو ہی پسند کرتے تھے، جیسے ڈاکٹر آصف فرخی بتاتے ہیں ، ’فن تعمیراور دانشورانہ سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ کھانا بھی کسی منتقل شدہ تہذیب کا آئینہ دار تھا، باورچیوں اور کھانے پکانے کے ماہرین کے ہمراہ انڈیا کا میٹھا اور کھانا یہاں آیا اس لیے ناظم آباد میں ملنے والی نہاری اتنی ہی ذائقے دار ہوتی جتنی کہ دہلی میں ہوتی تھی اور یہاں ملنے والے پیڑے بدایوں سے بھی اچھے ہوتے‘۔

👈کھانے پینے کے شوقین افراد کے لیے ناظم آباد میں بہت سے آپشن موجود تھے، بہترین مینگو شیک کے لیے آغا جوس کا رخ کیا جاسکتا تھا اور مشہور رس گلوں اور چاٹ کے لیے ناظم آباد چورنگی پہ واقع امبالا سوئیٹس پہنچا جاسکتا تھا، رضویہ کے نزدیک ملا چھولے اس کے مالک کی تیسری پیڑی تک منتقل ہوچکے تھے، صفائی کے لیے صرف 3 سے پانچ بجے علی الصبح بند ہونے والا وزیر رسٹورنٹ 22 گھنٹے صرف دو آنے میں چائے فروخت کرتا تھا، سعدی اور فردوسی کی گرم گرم چائے اور وظیفے کے طور پر ملتی تعلیم بھی یہاں دستیاب تھی۔

👈چورنگی کی جانب آگے بڑھیں تو ملا حلوائی اور ملا ریسٹورنٹ جس نے 1.25 روپے کی قیمت میں چکن تکہ کراچی میں متعارف کروایا، کیفے ذائقہ اپنی نہاری کے لیےمشہور تھا، جسے چند سال قبل گرادیا گیا اور اس کی جگہ مسجد تعمیر کردی گئی۔

اگر آپ کو بنی سنوری جگہ جانے کی خواہش ہو تو بلاک 1 کا الحسن آپ کو یہ انتظام فراہم کرتا ہے۔

👏آج کے دور میں یہ سب چیزیں سراب معلوم ہوتی ہیں اس وقت کا ناظم آباد دہلی اور اوادھ کے بہترین لوگوں کی ایک چھوٹی سی کائنات تھی، لیکن پھر 1970 کی دہائی میں اس کے باسیوں کی یہاں سے منتقلی کے ساتھ ساتھ اس کا یہ کردار کم ہوتا چلا گیا۔

اس تغیر کو غازی صلاح الدین کے مطابق، کراچی کا دانشور طبقہ پی آئی بی کالونی سے ناظم آباد منتقل ہوا اور پھر پی ای سی ایچ ایس اور آہستہ آہستہ مقامات کی اس تبدیلی کے بعد غائب ہوگیا، ہر مرحلے پر کچھ نقصان ہوتا گیا اور سب سے بڑا نقصان تب ہوا جب لکھاری، فنکار، اسکالرز اور دیگر افراد ناظم آباد سے پی ای سی ایچ ایس اور دیگر علاقوں میں منتقل ہوگئے، کراچی میں اقلیت کی موت اس وقت شروع ہوئی جب لوگوں نے ناظم آباد سے دور ہونا شروع کر دیا‘۔

👈اس وقت کا ناظم آباد اب نہیں رہا لیکن اب بھی اڑے اڑے رنگوں میں یاد کی صورت ہزاروں افراد کو اس وقت کا ناظم آباد یاد ہے جو اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ وہ اس کا حصہ رہے، جو بلاشبہ برصغیر کی تہذیب سے سجا ایک پررونق علاقہ تھا *۔

آپ اس مضمون میں اپنی یادیں اور باتیں بھی شیتر کر سکتے ہیں.

Loading