گاؤں میں رحیم نامی کمہار کی بہت شہرت تھی۔گاؤں کے ارد گرد دوسری آبادیوں کے لوگ رحیم کے بنائے گھڑے،تسلے،کونڈے،پیالے اور ہانڈیاں استعمال کرتے۔رحیم کے ہاتھ سے بنے برتن خوبصورت ہونے کے ساتھ پائیدار بھی ہوتے ہیں۔چکنے گھڑے میں رکھا پانی شدید گرمی میں بھی کئی دن تک ٹھنڈا اور ذائقے دار رہتا۔اسی طرح ہانڈیاں بھی سال ہا سال چلتیں اور ان میں پکنے والے سالن بھی ذائقے میں لاجواب ہوتے۔مٹی کی ہانڈی میں پکے ہوئے کھانے کا ذائقہ کسی دوسرے برتن میں پکنے والے کھانے سے یکسر مختلف ہوتا۔رفتہ رفتہ رحیم کے برتنوں کی دھوم اور مانگ بڑھتی گئی۔
گاؤں میں بیدو نامی ایک اور کمہار بھی رہتا تھا۔سرخ پہاڑیوں کے اس پار رہنے والا بیدو کمہار رحیم سے بغض رکھتا تھا اور کھلے عام اس سے ناپسندیدگی کا اظہار کرتا رہتا تھا۔
اس کے ہاتھ کے بنے ہوئے برتن دیدہ زیب تو ہوتے،مگر انتہائی ناپائیدار،جن کے کنارے جلد جھڑ جاتے تھے۔لوگ اس سے شوق سے برتن خریدتے،مگر کچھ دنوں میں ہی کرچیوں میں بٹ جاتے۔اس بنا پر آہستہ آہستہ گاہک کم ہونے لگے اور بیدو کا کام ٹھپ ہوتا گیا۔غصے میں بھرا وہ پیچ و تاب کھاتا رہتا کہ لوگ برتن احتیاط سے سنبھال نہیں پاتے تو بھلا اس میں میرا کیا قصور․․․․میں تو محنت کرتا ہوں اور میرا کوئی قدردان ہی نہیں،جب کہ رحیم کے تو سب گرویدہ ہیں۔
گاؤں والے بیدو کے غصے اور بد زبانی کی وجہ سے بھی اس سے تعلق کم رکھتے تھے۔رحیم بہت رحم دل،نیک اور عاجزانہ فطرت انسان تھا۔وہ برتن بنانے کے لئے اونچی پہاڑی کے قریب میدان سے سرخ اور پیلے رنگ کی چکنی مٹی کے بورے بھر بھر کر لاتا۔گھر آ کر مٹی کو خوب اچھی طرح چھان کر پہلے کنکر وغیرہ الگ کرتا۔اس کے بعد مٹی کو تب تک چھلنی سے گزارتا جب تک صاف ستھری ملائم مٹی کا ڈھیر جمع نہ ہو جاتا۔پھر وہ اللہ کا نام لے کر صاف پانی سے ملائم مٹی کو گوندھ کر،خوب اچھی طرح یکجان کرتا۔گندھی ہوئی مٹی کو گھومتے ہوئے پہیے جسے چاک کہتے،اس پر چڑھاتا اور بڑے پیار اور توجہ سے مٹی کو مطلوبہ شکل میں ڈھال دیتا۔تیار ہونے والے ہر اک برتن کو وہ احتیاط سے کھلے صحن میں دھوپ میں سوکھنے کے لئے رکھ دیتا اور آخر میں کچی مٹی کے برتن بھٹی میں رکھ کر پکا لیتا۔
جب سے بیدو کو پتا چلا تھا کہ رحیم کے برتن اب قریبی شہر میں بھی پہنچنے لگے ہیں تو وہ رحیم کی بڑھتی ہوئی شہرت سے بہت پریشان رہنے لگا تھا،اس لئے کام سے بیدو کا دل اچاٹ ہوتا گیا اور تھوڑا بہت جو کام کرتا،بے دلی سے کرتا۔”میں بھی تو وہیں سے مٹی لے کر آتا ہوں،جہاں سے رحیم لے کر آتا ہے۔خوب گوندھ کر اسی طرح گھومتے پہیے پر رکھ کر مٹی کو برتنوں کی شکل دیتا ہوں،خوبصورت نقش و نگار بناتا ہوں،مگر میرے بنائے برتنوں میں وہ بات کیوں نہیں جو رحیم کے بنائے برتنوں میں ہے؟“یہ سوچ سوچ کر وہ کڑھتا رہتا۔رحیم کے بنائے ہوئے برتن تواتر سے بکتے رہے۔اتنا مشہور ہونے کے باوجود رحیم نے اپنے برتنوں کی نہ قیمتیں بڑھائیں نہ زیادہ کام سے کبھی جی چرایا۔
وہ اتنی ہی لگن اور محنت سے کام کرتا رہا تھا۔
ایک روز بیدو نے سوچا کہ میرا نقصان ہو رہا ہے کیوں نہ میں اپنے نقصان کا بدلہ رحیم سے لوں۔یہ سوچ کر بیدو نے اک شام رحیم کے گھر کا رخ کیا۔گھر کے وسیع و عریض صحن کے ایک حصے میں چاک اور بھٹی لگی ہوئی تھی اور اسی طرف کچے برتنوں کو قطار در قطار سوکھنے کے لئے رکھا گیا تھا۔
بیدو نے دیوار سے سر اُٹھا کر اندر جھانکا تو اسے کوئی نظر نہ آیا۔اس نے پاس پڑا ایک پتھر اُٹھایا اور کچھ یوں نشانہ لینے کی ٹھانی کہ ایک ایک کر کے سبھی برتن ٹوٹتے جائیں․․․․اس سے قبل کہ وہ پتھر اُچھالتا،نامعلوم کیسے اس کا پاؤں پھسلا اور وہ پیچھے کی طرف جا گرا۔وہ رحیم کی محنت برباد کرنے آیا تھا،مگر چوٹ کھا کر واپس چلا گیا۔
یہ موسمِ سرما کا ایک روشن اور کھلا کھلا سا دن تھا۔حسبِ معمول رحیم نے نرم ملائم گندھی ہوئی مٹی کو گھومتے ہوئے پہیے پر چڑھایا ہی تھا کہ اک فقیر صدا لگاتا ہوا اس کے گھر میں داخل ہوا:”اے اللہ کے بندے!پانی پلا دے بڑی پیاس لگی ہے۔“وہ رحیم کے بنائے برتنوں کے پاس آ کر بیٹھ گیا تھا۔
اسے دیکھ کر رحیم دھیرے سے مسکرایا،اپنے بیٹے کو پانی لانے کا کہا اور خود مٹی کو ہانڈی کی شکل میں ڈھالنے لگا۔اس کی آنکھوں کی نرمی تھی اور جس پیار سے وہ برتن بنا رہا تھا،اس نے فقیر کو چونکنے پر مجبور کر دیا تھا۔پیالے سے پانی پی کر فقیر کا دل خوش ہو گیا۔کیسا میٹھا پانی تھا اور کتنا ہلکا پھلکا سا پیالہ تھا۔”یہ تم نے بنایا ہے نا؟“ اس نے پٹخنے کے انداز میں مٹی کا پیالہ زمین پر رکھا،وہ پھر بھی سلامت رہا۔
فقیر نے کہا:”ایک وہ بیدو کمہار ہے جس کے بنائے برتن خوامخواہ ٹوٹتے رہتے ہیں،کھوکھلے اور پُھسپُھسے․․․․․سنا ہے بہت نکما ہے۔مجھے لگتا ہے اسے ڈھنگ سے کام نہیں آتا․․․“
رحیم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا:”نہیں!کسی کے بارے میں ایسا نہیں کہتے،وہ بھی اچھا کام کرتا ہے۔“
اور پھر سے چاک کی طرف متوجہ ہو گیا۔یہ دیکھ کر فقیر بہت حیران ہوا کہ اس نے بیدو کی بُرائی سن کر بھی بُرائی نہیں کی تھی۔حالانکہ رحیم جانتا تھا کہ بیدو اس سے حسد کرتا اور اسے خوب بُرا بھلا کہتا رہتا ہے۔
”ضرور تمہارے پاس کوئی جادوئی منتر ہے،اسی وجہ سے تمہارے برتن نہ جلدی ٹوٹتے ہیں نہ ان کی تاثیر خراب ہوتی ہے۔“زیرِ لب بڑبڑاتے ہوئے فقیر اپنی جگہ سے اُٹھا تو رحیم نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا:”جو چیز خلوصِ دل سے بنا کر احترام سے پیش کی جائے گی اس میں برکت ہوتی ہے۔
“
یہ سن کر فقیر ٹھٹک گیا۔کیسی گہری بات اس نے بہت سادگی سے کہہ دی۔مرے مرے قدم اُٹھاتا وہ جہاں سے آیا اُدھر کو لوٹ گیا۔
دن دھیرے دھیرے گزرتے رہے۔
رحیم کے برتنوں کی مانگ تو بڑھ رہی تھی،مگر اب لوگ بیدو اور اس کے بنائے برتنوں میں آنے والی تبدیلی کو دیکھ کر بھی حیران تھے۔بیدو نے لوگوں سے خوامخواہ لڑنا جھگڑنا چھوڑ دیا تھا۔
کام میں اس کی توجہ اور خلوص قابل رشک حد تک بڑھ چکا تھا۔وہی لوگ جو اس کی بد زبانی سے تنگ تھے،اب اس کے چہرے پر نظر آنے والی نرمی اور مسکراہٹ دیکھ کر چونک اُٹھتے۔لوگوں کے دل بیدو کی طرف سے صاف ہوتے گئے اور دھیرے دھیرے سب اس کے ہاتھ کے بنے خوبصورت نقش و نگار سے سجے برتن خریدنے لگے۔یہ بڑی حیرانی کی بات تھی کہ اب اس کے برتنوں کی عمر بڑھ گئی تھی۔لوگوں کی شکایات دور ہو چکی تھیں۔
بیدو زندگی کا اک اہم راز جان گیا تھا،مگر یہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس روز رحیم کے گھر میں فقیر کے روپ میں آنے والا دراصل بیدو تھا۔