Daily Roshni News

بابا بھلے شاہ ؒ۔۔۔قسط نمبر2

بابا بھلے شاہ ؒ

قسط نمبر2

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اگست2019

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹر نیشنل۔۔۔۔بابا بھلے شاہؒ)ایک بندے کا دل نہ ڈھائن ، کیونکہ رب دل وچ رہندا انسان کا اصل باطن ہے: صوفیاء کی تعلیمات بتاتی ہیں کہ ظاہری و باطنی تمام علم انسان کے اپنے باطن میں موجود ہے۔ صوفیاء انسان کو اپنے باطن کے کھوجنے پر پر زور دیتے ہیں۔ بابا بلھے شاہ فرماتے ہیں:

پڑھ پڑھ عالم فاضل ہویا

کدے اپنے آپ نوں پڑھیا نہیں

جا جا وڑدا مسجداں مندراں اندر

 کدی اپنڑے اندر توں وڑیا ای نہیں

( تم کتابیں پڑھ کر عالم اور فاضل کہلاتے ہو مگر اپنے من کی دنیا کا مطالعہ نہیں کرتے ہو ۔ تم کبھی مسجد اور کبھی مندر جاتے ہو مگر کبھی اپنے من کی دنیا میں داخل نہیں ہوئے)۔ من کی آواز : بابا بلھے شاہ نے انسان کو اس کے باطن یعنی من ہو سے آنے والی آواز پر متوجہ کیا ہے، فرمایا کہ

جس پاریا بھید قلندر دا

راہ کھوجیا اپنے اندر وا

جتھے کوئی نہ چڑھدی لہندی ہے

 مونہہ آئی بات نہ رہندی ہے

ایہہ تمکن ، بازی ویرا اے

 تھم تھم کے ٹرو اندھیرا اے

 وڑ اندر دیکھو کیہڑا اے

 کیوں خلقت باہر ڈھونڈیندی اے

 منہ آئی بات نہ رہندی اے

 حضرت بلھے شاہ کے مطابق جس نے راز حق پای جیتے جیسے دوئی کا کہا کرومیه ں وچ رہندا راہ باطن تلاش کر کے ہی پایا اور جس نے یہ راز پا لیا وہ آخر سکونِ حقیقی کا حقدار بن گیا۔ جس نے اپنے باطن ی و باطنی اپنی روح کو پالیاوہ گویا خوشی و غم، گناہ و ثواب، حیات وموت اور ہر طرح کے رازوں سے واقف ہو گیاہیں۔

من اندر جوگ جگا لے توں

 یاری نال سجن دے لائے توں

 ایہو راہ ہے رب نو ، پاون دا

 سکھ  چج کوئی یار مناون دا

گم اپنے آپ چ ہو جا توں

 اونوں لبنا ای تے خود کھو جا توں

 چھڈ وہم خیال دوڑاون دا

سکھ چج کوئی یار مناون دا

 عشق و عرفان

 بابا بلھے شاہ فرماتے ہیں عشق میں دوئی نہیں ہوتی ہے عشق میں وحدت ہوتی ہے۔ عشق میں، میں نہیں من ہوتا۔ صرف تو ہوتا ہے۔ ہر طرف تو ہی تو ۔ عاشق کو ہر طرف، ہر نظارے میں اپنا معشوق کبھی ہی نظر آتا ہے۔

 رانجھا رانجھا! کردی، ہن میں آپے رانجھا ہوئی سرو مینوں دھیدو رانجھا، ہیر نہ آکھو کوئی رانجھا ئیں وچ، میں رانمجھے وچ، غیر خیال نہ کوئی میں نہیں، اوہ آپ ہے ، اپنی آپ کرے دلجوئی (ہیر کہتی ہے کہ “رانجھے (اپنے معشوق) کا نام جیتے جیتے اب میں خودرانجھے جیسی ہو گئی ہوں۔ یعنی لگایا جا کر لالہ دوئی کا تصور ختم ہو چکا ہے۔ لوگو! تم بھی اب مجھے رانجھے کی پر چھائیں یا سایہ کہا کرو میر انام پکارنے کی ضرورت نہیں …. میرا محبوب مجھ میں اس طرح رچ بس گیا ہے کہ ظاہر ریا کاری  دکھلاو مجھے ہر طرف صرف اسی کے جلوے نظر آتے ہیں، مجھے اور کوئی خیال ہی نہیں آتا …. مجھ میں اب میرا کچھ باقی نہیں رہا، مجھے دیکھنے والوں کو بھی میرے اندر میرا محبوب ہی دکھائی دیتا ہے….) تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا تیرے عشق نے ڈیرا، میرے اندر کہتا بھر کے زہر پیالہ، میں تاں آپے پیتا جھبدے بوہریں وے طبیبا، نہیں تاں میں مر گئی تلاش مرشد وحدت دے دریا ر سیندے میری وحدت کتول دھائی مرشد کامل پیار لنگھایاں، باہمجھ تلے شہر بنائی (وحدت کے لہریں مارتے ہوئے وسیع دریا کو دیکھ کر میرے ہوش و ہو اس کھو گئے لیکن مرشد کامل نے مجھے اس سمندر سے پار کرا دیا پھر کرامات کےسلسلے چل نکلے ۔ ) بلھے شاہ جاگ بنا دُدھ نہیں جمندا پانویں لال ہووے کڑھ کڑھ کے ۔ ( بلھے شاہ جب تک دودھ کو چھاچھ سے جامن نہ لگایا جائے دہی نہیں بنتا چاہے چولہے پر پڑا گرم ہو ہو کر لال ہو جائے۔ ایسے ہی کسی اہل نظر رہبر کے بغیر شخصیت مکمل نہیں ہو سکتی۔) ظاہر اور باطن کی طہارت: حضرت بلھے شاہ نے معاشرے میں خیانت اور ریاکاری کو اچھی طرح بھانپا اور اس کی نشاندہی کی ہے کہ دکھلاوے کی بندگی اور ریاکاری کی عبادت کا کوئی فائدہ نہیں۔ جھوٹ، فریب اور لالچ انسان کو حرص کے گڑھے میں لے جاتا ہے۔

 سسر تے ٹوپی تے نیت کھوٹی

 لینا کی سسرٹوپی ترھ کے؟

تسبیح پھری پر دل نہ پھریا

لینا کی تسبیح ہتھ پھڑ کے

( نماز پڑھنے کو ٹوپی سر پر رکھتے ہو اور اپنی نیت نیک اعمال کے لیے صاف نہیں رکھتے۔ ایسے ٹوپی سر پر رکھنے کا کیا فائدہ۔ تم ہاتھ میں تسبیح پکڑ کے اس کے دانے پھیرتے رہتے ہو مگر تمھارا دل ہوس کا غلام ہے آزادی اور محبت سے روشناس کرایا۔ چل بلھیا، چل اوتھے چلیے جتھے سارے آنے نہ کوئی ساڈی ذات پچھانڑے نہ کوئی سانوں منے بابا بلھے شاہ کہتے ہیں کہ : چل بل یا ایسی جگہ چل کر رہتے ہیں جہاں سب گویا اندھے رہتے ہوں اور جہاں کوئی میری ذات نہ جانتا ہو ، اور نہ کوئی مجھے مانتا ہو“۔ لوگوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے انہیں ان کے گردو پیش سے باخبر رکھنے، عملی اقدام کی ایسی تسبیح پھیرنے کا کیا نتیجہ )

 پڑھ پڑھ کتاباں علم دیاں توں نام رکھ لیا قاضی

 ہتھ وچ پھڑ کے تلوار نام رکھ لیا غازی

 مکے مدینے گھم آریا تے نام رکھ لیا حاجی

او بلھیا حاصل کی کیتا ؟ جے توں رب نا کیتا راضی

 سب انسان برابر ہیں : حضرت بلھے شاہ نے فرقہ بندی، مذہبی تعصب، رنگ و نسل سے بالا تر ہو کر قدرت کی پیدا کردہ مخلوق سے محبت کی ہے۔ بابا بلھے شاہ نے عشق کی فلاسفی سے انسانیت، تلقین کرنے سے بلھے شاہ کو ایک سماج مطلوب تھا۔ ایسا سماج جہاں لوگ باشعور اور باخبر ہوں۔ ایسا سماج جہاں جھوٹ ، غربت، افلاس منافقت، ریاکاری غریب اور نمود و نمائش کا نام تک نہ ہو ۔ بابا بلھے شاہ یاد دہانی کراتے ہیں کہ سوائے رب کائنات کے ہر چیز کو فنا ہے۔ تم جو کرو گے وہی کاٹو گے ور نہ نامر اور ہو گے۔ تنہا کونج کی مانند آہیں بھرو گے، کیونکہ پروں کے بغیر تو اڑان ممکن نہیں۔ بلھے شاہ کہتے ہیں کہ زندگی گزارنے کے ڈھنگ سیکھنے کے لیے اور اللہ کی عبادت میں اخلاص کی تربیت کے لیے رہبر مرشد بہت ضروری ہے۔ بابا صاحب کہتے ہیں کہ دنیا میں بہت سنبھل کر چل کیونکہ اس راستے سے کسی نے دوبارہ نہیں گزرنا ہے۔ اب اٹھ کر عمل کا آغاز کر دو ، غفلت میں کہیں اس قیمتی وقت سے ہاتھ نہ دھو بیٹھنا) نہ کر بند یا میری میری نہ تیری نہ میری چار دناں دا میلہ دُنیا فیرمٹی دی ڈھیری پڑھ پڑھ کتاباں علم دیاں توں نام رکھ لیا قاضی ہتھ وچ پھڑ کے تلوار نام رکھ لیا غازی مکے مدینے گھوم آریا تے نام رکھ لیا حاجی او بھلیا حاصل کی کیتا؟ جے توں رب نا کیتا راضی بھلا صاحب نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس سے دوستی کبھی نا کرو جس کو خود پر بہت غرور ہو، والدین کو برابھلا مت کہو چاہے وہلاکھ غلطی پر ہوں۔ غلط راستوں میں مت چلو چاہے منزل کتنی ہی دور ہو۔ راہ چلتے کسی پر دیسی کو دل نہ دو چاہے وہ کتنا ہی حسین ہو۔ بلھے شاہ کہتے ہیں! محبت صرف وہاں پاؤ گے جہاں محبت نبھانے کا دستور ہو۔

بابا صاحب سوال اُٹھاتے ہیں کہ تم روز شیطان کے خلاف لڑتے ہو مگر کبھی اپنے نفس کی خواہشات کے خلاف بھی لڑائی کی ہے؟ بلھے شاہ ؟ تم گفتگو میں عالم بالا کی بات کرتے ہو مگر زمیں پر تمہارے اندر جو ایک طاقت ور نفس ہے اس کو پکڑ کر قید کرو تو ما نہیں۔)حضرت بابا بلھے شاہ کا وصال 1181 ہجری میں ہوا آپ کا مزار اقدس قصور میں مرجع خلائق ہے۔ حضرت بابا بلھے شاہ کا عرس ہر سال قصور میں ماہ اگست کے آواخر میں جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ بلھے شاہ نے شاعری کا ایک ضخیم ورثہ چھوڑا ہے ۔ پنجابی کی تمام اہم اصناف کافی سی حرفی ، گنڈھاں ، اٹھوارے، دوہڑے اور بارہ ما ہے اُن کے کلام میں شامل ہیں۔ تین صدیاں گزر گئیں۔ بلھے شاہ آج بھی اپنے کروڑوں عقیدت مندوں اور مداحوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ وہ تو خود کہتے ہیں۔ بلھے شاہ اساں مرنانا ہیں گور پیا کوئی ہور “

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اگست2019

Loading