12 ربیع الاول
تحریر۔۔۔حمیراعلیم
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔12 ربیع الاول۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم )میرے مضمون پہ اکثریت بنا سوچے سمجھے اعتراضات کرے گی۔اور بنا کسی نص کے حوالے کے میرے نص سے ثابت شدہ مضمون پہ الزامات کا انبار لگا دے گی اس لئے کچھ سستی دکھا دی۔مگر آج کچھ ایسی پوسٹس پڑھنے اور کچھ ویڈیوز دیکھنے کا اتفاق ہوا تو رہا نہیں گیا۔اور سوچا ہمت کر کے لکھ ہی دوں۔تو مضمون حاضر ہے صرف ایک درخواست کرنی ہے اسے پڑھنے سے پہلے یہ سمجھ لیجئے کہ میرا کسی فرقے، مسلک یا مکتبہ فکر سے تعلق نہیں ہے۔میں سیدھی سیدھی قرآن و حدیث اور پھر ان علماء کرام کی رائے پہ عمل کرنے والی مسلمان ہوں جن کی رائے قرآن و سنت کے مطابق ہو۔
اور اگر کسی کو اعتراض ہے تو اپنے اعتراض و اختلاف کو مستند نص حوالے کے ساتھ ہی بیان کرے۔ذاتی حملے کر کے اپنی بری تربیت اور ذہنیت کا ثبوت دینے سے بہتر خاموشی ہے۔مجھ پہ وہابی، سلفی، اہلحدیث ہونے کا ٹیگ لگانے کی بجائے اگر آپ مجھے مسلمان سمجھ کر اسے پڑھیں گے تو میں بیحد مشکور ہوں گی۔
عنوان مضمون ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی محبت میں ان کامیلاد منانا۔سب سے پہلے جو لوگ اسے مناتے ہیں ان کے دلائل کا جائزہ لیتے ہیں۔
” آپ اپنے بچوں کی سالگرہ تو منا لیتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مناتے ہوئے تکلیف ہوتی ہے۔
ہم تو ان سے محبت کرتے ہیں جو میلاد نہیں مناتے وہ تو ہیں ہی کافر لعنتی۔
ہم بارہ وفات کیوں منائیں یہ تو وہ منائیں جو سمجھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وصال ہو چکا۔ہمارے نبی تو زندہ ہیں ہم تو ان کی سالگرہ ضرور منائیں گے۔”
ایسے بچکانہ دلائل کی بھرمار ہے۔اگر ذرا سی عقل استعمال کی جائے تو کوئی بھی مسلمان ان کا رد کر سکتا ہے۔سالگِرہ منانا اسلام کی رو سے جائز نہیں۔کیونکہ یہ عیسائیوں کا رواج ہے اور ہمیں منع فرمایا گیا ہے کہ ان کی مشابہت اختیار کریں۔
” جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے۔” ابو داؤد 4031
نہ اپنی نہ بچوں کی نہ ہی کسی اور کی سالگرہ منانا جائز ہے جو لوگ ایسا کرتے ہیں غلط کرتے ہیں ان کے غلط فعل کی بنیاد پہ ایک اور غلط فعل سرانجام دینا کہاں کی عقلمندی ہے؟
جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ میلاد نہیں منایا تو کیا ہم نعوذ باللہ ان سے زیادہ پکے اور باعمل مسلمان و عالم ہیں کہ ہم نے اسے منانا اہم بنا لیا ہے؟منائیے ضرور منائیں مگر اس طریقے سے جیس نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خود منائی ہے اگر آپ کو علم ہو تو وہ ہر پیر کو روزہ رکھتے تھے پوچھنے پر فرمایا میں پیر کے دن پیدا ہوا تھا اس لئے بطور شکرانہ روزہ رکھتا ہوں۔ مسلم کتاب الصیام 819۔
تو روزہ رکھتے ثواب بھی پائیے سنت بھی پوری کیجئے اور میلاد بھی منائیے۔نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیسوں احادیث مل جائیں گی جہاں سوال پر فرمایا.
“اگر تمہیں مجھ سے محبت ہے تو سجدوں کی کثرت کرو۔” مسلم
” بھوکے کو کھانا،کھلاو۔” ترمذی
” یتیم کی کفالت کرو۔”مسلم 1592۔بخاری
اور بہت سے اعمال کرنے کا حکم دیا مگر یہ نہیں فرمایا کہ بڑی سی محفل منعقد کرنا لاوڈ اسپیکر ٹینٹ لگانا گانوں کی ٹیونز والی نعتیں پڑھنا، نمازچھوڑ دینا،مگر محفل میلاد نہیں، جلوس نکالنا جس میں ہندووں اور عیسائیوں کی طرح ( جیسے وہ اپنے الہ اور بتوں کو اٹھائے پھرتے ہیں )میری مسجد اور کعبہ کے ماڈلزبنا کر گھومنا اور پورا دن اور پوری رات مسجد کے لاوڈ اسپیکر پہ نعتیں گا گا کر لوگوں کو نہ کوئی کام کرنے دینا نہ آرام نہ سونے دینا چاہے کوئی بیمار ہی کیوں نہ ہو، انواع و اقسام کے کھانے کھانا اور وہ ساری سنتیں بھول جانا جن میں میں نے نماز مختصر کر دی صرف اس لئے کہ خواتین کے چھوٹے بچے رو رہے تھے اور مرد کام کی وجہ سے تھکے ہوئے تھے۔قرآن کی بلند تلاوت نہیں کی کہ لوگوں کی نیند نہ خراب ہو، کعبے سے بت ہٹائے، ننگے طواف کرنے سیٹیاں تالیاں گانے بجانے سے منع فرمایا کیونکہ یہ سب جاہلانہ باتیں تھیں۔ لوگوں کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیا۔گناہ و حرام سے بچنے کی تاکید فرمائی۔
اللہ تعالٰی قرآن پاک میں اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حدیث کے ذریعے فرماتے ہیں۔
کسی پہ لعنت نہ بھیجو۔ مسلم کتاب الزہد۔داود کتاب الادب
یہاں کسی پر بھی کالفظ ہے کجا کہ آپ مسلمانوں پہ ہی لعنت بھیج رہے ہیں۔وہ بھی ایک بدعت کے نہ کرنے پر۔اور اگر اس حدیث کو پڑھیں تو اتنی سخت وعید ہے کہ بندہ کبھی ایسا نہ کہے کیونکہ:”
سمرة بن جندب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایک دوسرے پر لعنت نہ ڈالو، اور آپس میں یوں نہ کہو کہ تجھ پر اللہ کا غضب ہواور نہ آپس میں ایک دوسرے کے لئے یوں کہو کہ تو جہنم میں جائے (اور روایت میں ہے)کہ نہ آپس میں ایک دوسرے کے لئے یوں کہو کہ آگ میں جلے۔ (مشکوة 413 بحوالہ ترمذی اور ابوداؤد)۔
سیدہ ام درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ میں نے ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بندہ جب کسی چیز پر لعنت کرتا ہے تو وہ لعنت آسمان کی جانب پروان چڑھتی ہے اور آسمان کے دروازے اس پر بند کردئیے جاتے ہیں پھر وہ زمین کی جانب اترتی ہے تو اس کے لیے زمین کے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں پھر دائیں بائیں جگہ پکڑتی ہے جب کہیں کوئی گھسنے کی جگہ نہیں ملتی تو جس پر لعنت کی گئی ہے اس کی طرف جاتی ہے اگر وہ اس لعنت کا حقدار ہو ورنہ کہنے والے کی طرف لوٹ جاتی ہے۔
سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 1500
اگلا جواز ہے کہ ہم تو بارہ وفات اس لئے نہیں مناتے کہ ہمارے نبی تو قبر میں زندہ ہیں۔ تو جناب یہاں آپ کو ذرا اپنی اس نہایت بھونڈی دلیل پہ نظر ثانی کی ضرورت ہے۔پہلی بات تو یہ کہ اگر آپ اپنے والدین، اولاد،دوست رشتےدار یا کسی بھی اجنبی شخص کو زندہ قبر میں دفن نہیں کرتے تو کیا نعوذ باللہ صحابہ کرام اپنی محبوب ترین ہستی کو زندہ قبر میں دفن کر سکتے تھے؟؟؟چلیے اسے بھی چھوڑیے۔جو لوگ سیرت النبی پڑھ چکے ہیں وہ اس بات سے واقف ہوں گے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وفات سے پہلے فاطمہ رضی اللہ کے کان میں کچھ کہا تو وہ رو پڑیں پھر کچھ کہا تو وہ ہنس دیں۔دریافت کرنے پہ فرمایا۔
” پہلے انہوں نے مجھے اپنی وفات کے بارے میں بتایا پھر فرمایا کہ میں جنت کی خواتین کی سردار ہونگی۔” بخاری و مسلم
جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا انتقال ہوا تو بو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔
” اگر تم میں سے کوئی شخص محمد کی عبادت کرتا تھا تو اسے معلوم ہونا چاہیے ان کی وفات ہو چکی۔اور اگر کوئی اللہ کی عبادت کرتا ہے تو اللہ باقی رہنے والا ہے۔وہ کبھی مرنے والانہیں ۔محمد صرف اللہ کے رسول ہیں اور بہت سے رسول ان سے پہلے بھی گزر چکے۔پس کیا اگر وہ وفات پا جائیں یا انہیں شہید کر دیا جائے تو کیا تم اسلام سے پھر جاو گے۔اور جو شخص اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائے تو وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گااور اللہ عنقریب اپنے شکرگزار بندوں کو بدلہ دینے والا ہے۔” آل عمران 144
ایک اور آیت قرآن سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ سب انسان فوت ہوں گے اور چونکہ انبیاء بھی انسان تھے تو ان کا بھی انتقال ہوا اسی لیے ان کی قبریں موجود ہیں۔
” ہر نفس موت کا ذائقہ چکھے گا۔” آل عمران 185
شہید بھی مرتا ہے تو جنت میں جاتا ہے۔انبیاء کے لیے برزخ کی زندگی نہیں ان کی ارواح شہدا کی طرح ڈائریکٹ جنت میں جاتی ہیں ۔تو کہیں آپ ان دو آیات اور تمام احادیث بخاری و مسلم کا انکار کر کے گستاخی کے مرتکب تو نہیں ہو رہے ؟ذرا غور فرمائیے۔
حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے حوالے سے مؤرخین اور سیرت نگاروں کی آراء مختلف ہیں، مشہور یہ ہے کہ بارہ ربیع الاول کو پیدائش ہوئی، البتہ محققین علماءِ کرام کے دو قول ہیں، 8 ربیع الاول یا 9 ربیع الاول، بعض نے ایک کو ترجیح دی ہے، بعض نے دوسرے کو۔ راجح قول کے مطابق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش 8 ربیع الاول بمطابق 20 یا 22 اپریل 571 عیسوی کو ہوئی، (اپریل کی تاریخ کا اختلاف عیسوی تقویم کے اختلاف کا نتیجہ ہے.لیکن تاریخ وفات پر سب کا اتفاق ہے کہ بارہ ربیع الاول ہی تھی۔
اب ذرا اس میلاد النبی کی تاریخ بھی ملاحظہ فرما لیجئے۔کہ یہ کب اور کس نے شروع کیا۔
اس سلسلے میں مختلف روایات ہیں جن کےمطابق عباسیوں یا فاطمیوں نے اس کا آغاز بغداد میں کیا۔الخزرون بنت عطا عباسی نے اسے منانا شروع کیا۔ابن جبیر کہتے ہیں کہ ہر ربیع الاول کے تیسرے پیر کو میلاد النبی منایا جاتا تھا۔مصری مورخ مکریزی کےمطابق اس کا آغاز 1122 میں ہوا۔مظفرالدین گوکبوری، جو کہ صلاح الدین کا برادر نسبتی تھا، نےایبرل، موجودہ عراق میں اس کا آغاز کیا ۔
یاد رکھیے حقیقی اسلامی تہواروں یعنی عیدین اور حج کے اوقات اور عمل و افعال میں کوئی ابہام نہیں سب جانتے ہیں کہ رمضان کےبعد یکم شوال کو عیدالفطر۔اور دس ذی الحج کو عید الاضحٰی ہوتی ہے۔لیکن یہ کیسا اسلامی تہوار ہے جس کے آغاز کے بارے میں کوئی مستند تاریخی حوالہ نہیں ہے۔اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیدائش کے تقریبا 400 سال بعد اس کا آغاز کسی عالم نہیں کیا بلکہ عام انسان نے کیا۔نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی صحابی نے تابعی یا تبع تابعی نے کبھی اس سلسلے میں سوچا بھی نہیں نہ ہی بات کی۔
جب اس کاآغاز ہوا تو صرف اجتماعات میں قرآن پڑھنے یا نعت پڑھنے کا سلسلہ ہوتا تھا آہستہ آہستہ اس میں اتنی خرافات شامل ہو گئیں کہ میلادالنبی کرسمس اور رام لیلی کے جلوسوں میں تفریق کرنا مشکل ہو گیا۔کچھ سال پہلے تک پاکستان میں بھی اس کا اتنا رواج نہیں تھا جتنا آج ہے۔اسلام دین فطرت ہے ۔یہ ایسے کسی عمل کا نہ تو حکم دیتا ہے نہ ہی توقع رکھتا ہے جس کے لیے ایک عام انسان استطاعت نہ رکھتا ہو۔یہی وجہ ہے کہ حج اور زکاہ بھی صرف صاحب استطاعت مسلمانوں پر فرض ہیں۔
اب ذرا غور فرمائیے جو مسلمان غریب ہیں اور ان سب محافل، مجالس اور اشیا کا اہتمام نہیں کر سکتے تو کیا وہ مسلمان نہیں یا وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے محبت نہیں رکھتے؟ ہرگز نہیں۔ہر مسلمان ان سے محبت کرتا ہے لیکن وہ صرف اسی صورت میں نبی کریم صلی اللہ و علیہ و آلہ و سلم کی محبت کاحق دار ٹھہرے گا جب ان کی سنتوں پہ عمل پیرا ہو گا ان کے نقش پا پہ چلے گا( کیونکہ نقش پا پیروی کرنے کے لیے ہے نا کہ نعلین کا نقش ماتھے، سینے پہ سجانے کےلئے ہے)۔
ان سب باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کوشش یہ کرنی چاہیے کہ نبی کریم صلی اللہ و علیہ و آلہ و سلم سے اپنی محبت کاثبوت اس طریقے سے دیں جو خود انہوں نے سکھایا ہے۔یعنی ان کے جیسے اعمال کر کے۔ان کی سنتوں پر عمل کر کے۔ان کی سنتوں کا احیاء کر کے۔کیونکہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہے۔کہ حوض کوثر پہ میری امت کے چند لوگ آئیں گے جن کے اعضاء وضو چمک رہے ہونگے۔جب میں انہیں حوض کا پانی پلانے لگوں گا تو فرشتے مجھے یہ کہہ کر روک دیں گے کہ یہ بدعتی( دین میں کسی نئے کام کی ایجاد کرنا اور پھر اسے اس نیت سے کرنا کہ ثواب ہو گا۔)ہے۔
ایک اور روایت یوں ہے۔
“حوض پر میرے صحابہ کی ایک جماعت آئے گی۔ پھر انہیں اس سے دور کر دیا جائے گا۔ میں عرض کروں گا میرے رب! یہ تو میرے صحابہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تمہیں معلوم نہیں کہ انہوں نے تمہارے بعد کیا کیا نئی چیزیں ایجاد کر لی تھیں، یہ الٹے پاؤں (اسلام سے) واپس لوٹ گئے تھے۔“ بخاری 6586
ٹوکیو آپ ہر پیر کو روزہ رکھتے کر میلاد النبی منانے کی سنت پر عمل کریں گے؟؟؟
اللہ تعالٰی ہمیں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنتوں کو پڑھنے جاننے اور ان پر عمل کرنے اور انہیں پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے اور حوض کوثر پر ان کے ہاتھ سے پانی پلائے۔آمین