Daily Roshni News

یہ سنہ 1997 کی بات ہے

یہ سنہ 1997 کی بات ہے

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیو زانٹرنیشنل )یہ سنہ 1997 کی بات ہے جب روس میں ہنٹر “ولادی میر مارکوو” نے برف پر چیتے کے قدموں کے نشان دیکھے اور ان کا پیچھا کرنا شروع کر دیا، تھوڑی دور جاکر اسے ان قدموں کے نشان چھوڑنے والا چیتا نظر آگیا، یہ چیتا اپنا شکار کیا ہوا جانور لیے بیٹھا تھا – چنانچہ شکاری نے اپنی بندوق سیدھی کی اورچیتے کا نشانہ باندھا اور اس پر فائر کر دیا – گولی چیتے کو نہ لگ سکی، چیتا  دور تک بھاگتا ہوا ویرانے میں کہیں روپوش ہوگیا –

اب شکاری نے یہ کام کیا کہ اس چیتے کا شکار کیا ہوا جانور اٹھایا اور اسے لے کر اپنے رہائشی کیبن میں واپس آگیا –

یوڈیگی قبیلے کا کہنا ہے کہ جب کوئی شخص بنا وجہ کے چیتے کو نقصان پہنچاتا ہے تو وہ چیتے کی “امبا” یعنی انتقامی فطرت کو جگا دیتا ہے – یہی کام مارکوو نے کر دیا تھا، اس نے چیتے کو تکلیف پہنچا کر انتقامی کارروائی پر مجبور کردیا تھا –

اس چیتے نے دور ویرانے میں جاکر مارکوو کو اپنی تاک میں بیٹھا لیا تھا ، یہ آہستہ آہستہ واپس آیا اور مارکوو کا پیچھا کرتا ہوا اس کے کیبن کے بالکل قریب پہنچ گیا – یہ  چیتا کیبن سے کچھ فاصلے پر مارکوو کی تاک میں بیٹھ گیا اور اس کے باہر نکلنے کا انتظار کرنے لگا –

اس چیتے نے 72 گھنٹوں تک درست حکمت عملی اور موقعے کا صحیح انتظار کیا اور جب مارکوو اپنے کیبن سے باہر نکلا تو چیتے نے اس پر فوراً حملہ کردیا – اس نے پہلے مارکوو کو شکار کی طرح جان سے مارا اور پھر اس کو کھا گیا – اس طرح چیتے نے اپنا بدلہ مارکوو سے لے لیا تھا-

یہاں روس میں آج بھی یہ واقعہ اسی طرح سنسنی خیز ہے جیسا کہ برسوں پہلے تھا –

بحوالہ کتاب: دی ٹائیگر

مصنف: جان ویلینٹ

آلوارو لائیز نے “وٹنس” میں لکھا کہ وہ روس کے انتہائی مشرق میں یوڈیگی قبیلے(یہ فطرت کے قریب رہتے ہیں اور جانوروں کی نفسیات کو بخوبی جانتے ہیں) کے ساتھ چیتے کے بارے میں ایک پروجیکٹ پر کام کر رہے تھے –

ایک دن جنگل میں شکار کے دوران شام کے وقت “دریائے بیکن” کے پاس “تیگا” کے مقام پر وہ سب کھو گئے، یہ لوگ واپسی کا راستہ تلاش کر رہے تھے کہ اچانک ان کے ساتھ آئے ہوئے کتوں نے بے تحاشا بھونکنا شروع کر دیا – یہ کتے چپ کروانے پر بھی خاموش نہ ہوتے تھے، ان لوگوں نے جب زمین پر دیکھا تو انہیںسائبیرین چیتے کے قدموں کے نشانات ملے –

اور جب دور اندھیری جھاڑیوں پر جب ان کی بے ساختہ نگاہ پڑی تو کیا دیکھتے ہیں کہ اندھیرے میں بہت سی نیلی آنکھیں لالٹین کی تیز روشنی کی طرح جگمگا رہی ہیں – دراصل یہ آنکھیں سائبیرین چیتوں کی تھیں جو انہیں مسلسل کئی گھنٹوں سے گھور رہے تھے –

 یوڈیگی قبیلے میں ایک کہاوت مشہور ہے کہ؛

“اگر آپ نے چیتے کو ابھی ایک سیکنڈ پہلے ہی دیکھا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ چیتا آپ کو پچھلے ایک گھنٹے سے مسلسل گھور رہا ہے! “

جانداروں میں اونٹ ، چیتا ، ہاتھی ، کوبرا ناگ اور ریچھ کینہ رکھتے ہیں – جو انھیں تکلیف دیتا ہے، یہ پھر اس سے لازمی اپنا بدلہ اور انتقام لے کر حساب برابر کر دیتے ہیں!

انسانوں میں افغان قوم اپنا بدلہ لینا کبھی نہیں چھوڑتی – برصغیر پر قبضہ کے دوران جب انگریزوں کا واسطہ افغانوں سے پڑا تو برطانوی قوم یہ جملہ کہنے پر مجبور ہوگئی؛

“خدا تمھیں ہاتھی، کوبرا ناگ اور ایک افغان کے انتقام سے محفوظ رکھے-“

(بحوالہ کتاب: Around Afghanistan)

خدا تعالیٰ بھی اجازت دیتے ہیں کہ ظالم سےاپنا بدلہ لو؛

 فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ ۚ

“جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر اسی کے مثل زیادتی کرو جو اس نے تم پر کی ہے! “(البقرہ: 194)

منقول

#قراةالعین زینب ایڈووکیٹ

Loading