ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ایک ملاح کی کشتی میں دو انتہائی تعلیم یافتہ مگر خودپسند اور مغرور انسان سوار ہوئے. ان میں سے ایک اپنے وقت کا معروف فلسفی تھا اور دوسرا مشہور ریاضی دان. سمندر میں دوران سفر فلسفی نے ریاضی دان پر دھاک بٹھانے کیلئے ملاح کو مخاطب کرکے پوچھا “کیا تمہیں فلسفہ آتا ہے؟” .. ملاح نے متانت سے جواب دیا “نہیں محترم” .. فلسفی نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ “پھر سمجھو تم نے فلسفہ نہ سیکھ کر اپنی پچیس فیصد زندگی ضائع کردی” .. کچھ دیر کشتی میں خاموشی رہی. اب ریاضی دان نے فسلفی کو نیچا دکھانے کی ٹھانی اور ملاح کو بالواسطہ مخاطب کیا “کیا تمھیں ریاضی آتی ہے؟” ملاح نے بے بسی سے نفی میں گردن ہلائی اور کہا “نہیں صاحب” .. اب کے قہقہہ ریاضی دان نے لگایا اور رعونت سے بولا “پھر سمجھو تم نے ریاضی نہ سیکھ کر اپنی آدھی زندگی ضائع کردی”
.
کشتی میں ایک بار پھر خاموشی چھاگئی. اچانک ملاح نے فلسفی اور ریاضی دان کو مخاطب کیا اور پوچھا “کیا آپ دونوں دانشوروں کو تیراکی آتی ہے؟” .. دونوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا اور گردن نفی میں ہلاتے ہوئے بولے “نہیں مگر کیوں؟” .. ملاح نے قہقہہ لگایا اور کہا کہ “پھر سمجھو آپ نے تیراکی نہ سیکھ کر اپنی پوری زندگی ضائع کردی … کشتی میں سوراخ ہوگیا ہے اور بچنے کی واحد صورت اس وقت تیراکی ہی ہے”
.
یہ ایک فرضی داستان ہے مگر سمجھنے کی بات یہ ہے کہ علم و ہنر کے کسی شعبے میں مہارت رکھنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان متکبر ہوجائے یا یہ غلط فہمی پال لے کہ علم و ہنر کے دوسرے شعبے کمتر ہیں. ایک کمہار بھی اپنے فن میں اتنا ہی مشتاق ہے جتنا کوئی آئی ٹی پروفیشنل. ایک مدرسے کا عالم دین بھی ایسے ہی قابل عزت ہے جیسے ایک کالج کا پروفیسر. ہم انسان مختلف علوم میں مہارت رکھتے ہیں اور ہمیں انکسار و باہمی ادب کے ساتھ ایک دوسرے سے مستفید ہونا چاہیئے. سائنس کے شعبے انسانیت کیلئے فی الواقع تکریم کے حامل ہیں مگر اس سے ہرگز یہ مراد نہیں لینی چاہیئے کہ سائنسدان کسی فلسفی، شاعر یا مصور سے زیادہ زہین ہوتے ہے. حقیقت فقط اتنی ہے کہ ان سب کی ذہانت جدا جدا ہے اور مختلف شعبوں سے وابستہ ہے.