Daily Roshni News

کتاب المبین کیا ہے؟

کتاب المبین کیا ہے؟

 ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )سورہ یوسف کے حوالے سے یہ دوسرا عنوان ہے،  قران کریم میں لفظ ” کتاب ” 230 مرتبہ اور لفظ ” مبین ” 106 دفعہ دہرایا گیا ہے، قران کریم میں جتنے بھی حروف مقطعات کی آیات ہیں انکے ساتھ کتاب کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے،  روحانی علوم میں کتاب سے کیا مراد ہے اور کتاب المبین کے اندر حروف مقطعات کیسے کام کرتے ہیں اس کو  سمجھنے سے پہلے کتاب کا سمجھنا بہت ضروری ہے۔ دنیا کی جتنی بھی کتابوں کی طباعت، کتابت اور اشاعت کی جاتی ہے خواہ وہ کسی بھی زبان میں ہوں ایک چیز ضرور مشترک ہو گی کہ” ہر لفظ یا حرف کے بعد خلاء،  فاصلہ یا اسپیس ضرور ہوگی ”  یعنی دو الفاظ یا دو حروف کے درمیان اور چاروں طرف فاصلہ۔ خلاء یا اسپیس لازمی وجود میں آئےگی، اگر ایسا نہ ہو تو ہم تحریر اور اس کی فہم کو نہیں سمجھ سکتے،  یہ عام مادی کتاب کی بات ہورہی ہے ۔ اب ہم  الہامی کتاب کی طرزوں کو ان الفاظ میں اس طرح بیان کرتے ہیں کہ کتاب کے اندر  جتنے بھی الفاظ، خدوخال اور نقش ونگار ہیں وہ سب مکان یا مادہ ہیں اور ان کے درمیان جو خلاء یا فاصلہ ہے وہ زمان یا ٹائم ہے، بلکل اسی طرح ہماری پوری کائنات کے اندر جتنا بھی مٹریل یا مادے کی بجتنی بھی حالتیں، سورج،  چاند،  ستارے،  جمادات، نباتات اور حیوانات ہیں وہ سب  مکان ہیں اور انکے درمیان موجود خلاء فاصلہ زمان کے علاوہ کچھ نہیں، کائنات کے یہ دونوں رخ مل کر کتاب کہلاتے ہیں،  قران مجید میں کتاب لفظ جس جگہ بھی آیا ہے اس مراد، ٹائم اینڈ اسپیس،  زمان ومکان،  زمین واسمان،  نفی اثبات کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور یہی روحانی علوم کی  بنیاد ہے ، پوری کائنات اپنی لامتناہی وسعتوں،  گہرائیوں اور لامحدودیت کی بنا پر کتاب المبین کہلاتی ہے، قران کریم میں لفظ ” مبین”  جس جگہ بھی آیا ہے اس سے مراد سب سے بڑی اور بلند پایہ ایسی چیز، مقام، علم یا صلاحیت جس کے بعد کوئی دوسری بڑی نہیں یوسکتی، مثلا “عدو المبین”  کا مطلب سب سے بڑا دشمن،  اس سے بڑا دشمن کوئی، “سحرالمبین” کے معنی سب سے بڑا جادو، اس سے بڑا جادو کوئی نہیں، کتاب المبین سب سے بڑی کتاب، اس سے بڑی کتاب کوئی نہیں، اس کتاب کی وسعتوں اور گہرائیوں کے متعلق روحانی سائنسدان ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں

* ایک کتاب المبین

* کتاب المبین میں تیس کروڑ لوح محفوظ

* ایک لوح محفوظ میں اسی ہزار  حضیرے

* ایک حضیرے میں بارہ کھرب غیر مستقل نظام اور ایک کھرب مستقل نظام

* ایک نظام میں نو، گیارہ یا تیرہ سیارے

* ایک سیارے زمین کے اندر اربوں کھربوں مخلوقات اور نوعیں،

* نوعوں میں انسان،  جن اور فرشتوں کے علاوہ ماورائی اجسام

* ایک نوع انسانی کی موجودہ تعداد آٹھ ارب بیس کروڑ

* ایک انسان کے صرف دماغ کے اندر بارہ کھرب سیلز

* ایک سیلز کے اندر چھیالیس کروموسوم سومز

* ایک کروموسوم کے اندر ساڑھے گیارہ ہزار  مختلف قسم کے رنگ

* رنگوں کا مخزن لامتناہی روشنی جس کی مقداریں نا معلوم ہیں ، کہکشانی نظاموں کے الگ الگ رنگ ہیں رنگ روشنی سے نکلنے ہیں

* روشنیوں کا مرکز نور ہے

* اور اللہ زمین و آسمان کا نور ہے

* نور اربوں کھربوں تجلیات سے ظاہر ہوتا ہے

* تجلیات لامتناہی صفات کا حصہ ہیں

* صفات ایک ہی ذات اللہ تعالٰی کے امر،   کن،  فیکون سے ظاہر ہوتی ہیں۔۔

قرآن مجید کی سورہ  لقمان میں اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں

” وَ لَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ اَقْلَامٌ وَّ الْبَحْرُ یَمُدُّهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمٰتُ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(27)

اور اگر زمین میں جتنے درخت ہیں سب قلمیں ہوجائیں اور سمندر  سیاہی ہو  جائیں، اس طرح کے  سات سمندر اور بھی  ہوں تو اللہ کی باتیں ختم نہ ہوں گی،  بےشک اللہ عزت و حکمت والا ہے”

یہ صرف اللہ تعالٰی کے ایک ” کن کا ،فیکون ہے ” اللہ تعالٰی کی ذات اقدس نے  کتنے کن فرمائے ہیں کوئی نہیں جان سکتا،  اللہ تعالٰی کی کتاب المبین کو سمجھنے کی یہ طرز مادی شعور کو روحانی شعور سے متعارف کرانے کی کوشش ہے۔

تحریر یا مصوری ہمیشہ کسی کاغذ، بورڈ، دیوار  یا کسی بساط پر مظہر بنتی ہے اگر یہ چیزیں نہ ہوں تو کچھ بھی منظر عام میں نہیں آسکتا، کائنات کے تمام مظاہرات کی بساط یا بنیاد زمان،  خلاء یا اسپیس ہے، اگر زمان یا خلاء نہ ہو تو کوئی چیز بھی مظاہرات میں منتقل نہیں ہوسکتی یعنی کائنات کے خدوخال اور نقش ونگار کی بساط زمان یا خلاء ہے۔ یہ  سب زمان ومکان یا زمین و آسمان ملکر کتاب المبین کہلاتے ہیں،  پچھلی پوسٹ میں قرآن مجید کی سورہ انبیاء کی آیت نمبر 30 میں یہ کہی گئی تھی کہ زمین اور آسمان آپس میں جڑے ہوئے تھے اور انکو ایک دوسرے سے قطع کیا گیا اور کائنات کی تمام حرکات قران کریم کے بیان کردہ حروف مقطعات کے اندر بند ہیں، سورہ یوسف کی پہلی آیت کے اندر حروف مقطعات کے بعد اسی کتاب المبین کا ذکر کیا گیا ہے

” الٓـرٰ ۚ تِلْكَ اٰيَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِيْنِ (1)

ایت کا معنی نشانی ہے

الر ( الف۔لام۔را) کی نشانیاں یا آیات کتاب المبین کے اندر موجود ہیں ، سورہ یوسف کی پہلی آیت لامتناہی علوم کا انکشاف کرتی ہے کتاب المبین کے حوالے سے مختصرا تفکر قارئین کے سامنے پیش کیا گیا ہے ۔ آگلی پوسٹ میں عربی زبان کی روحانی حقیقت بیان کی جائے گی۔

Loading