Daily Roshni News

پنجگورحملہ۔۔۔تحریر۔۔ حمیراعلیم

، “پنجگورحملہ”

تحریر۔۔ حمیراعلیم

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ پنجگورحملہ۔۔۔تحریر۔۔ حمیراعلیم )بلوچستان میں پچھلی دو دہائیوں سے پنجابیوں کی ٹارگٹ کلنگ جاری ہے جب اس کا آغاز ہوا اور پروفیسرز، ڈاکٹرز، ٹیچرز سمیت دودھ فروش، نائیوں تک کو سرعام گولیاں ماری گئیں تو بہت سے لوگ بلوچستان سے پنجاب چلے گئے۔لیکن چند ایک اپنے بزنس یا جاب کی وجہ سے یہاں رہنے پر مجبور تھے۔انہی میں کوئلے کی  کانوں میں کام کرنے والے کان کن، میڈیکل ، کلیریکل اسٹاف اور مزدور شامل ہیں۔

    یہ مزدور کے پی کے ، پنجاب اور سندھ سے کام کی تلاش میں بلوچستان آتے ہیں۔ان کا تعلق نہایت ہی غریب طبقے سے ہوتا ہے اس لیے بلوچستان میں سخت حالات میں محنت مشقت کر کے بارہ گھنٹے کی شفٹ میں کام کرتے ہیں کرائے کے ایک چھوٹے سے کمرے میں کئی لوگ رہتے ہیں کان کن کان کے ساتھ ہی جھونپڑیاں لگا کر یا مٹی گارے کے کچے کمرے بناکر رہتے ہیں۔ چٹنی روٹی کھا کر گزارہ کرتے ہیں تاکہ اپنے خاندانوں کو کچھ پیسہ بھیج سکیں۔سالہا سال اپنے گھر والوں سے دور رہتے ہیں کیونکہ آنے جانے پر پیسہ بھی لگتا ہے اور چھٹیوں کی تنخواہ بھی نہیں ملتی۔اور اس پر مستزاد دہشت گرد انہیں بسز سے نکال کر صرف اس جرم کی پاداش میں گولی مار دیتے ہیں کہ وہ پنجابی ہیں۔پنجگور میں سات مزدوروں کا قتل نیا واقعہ نہیں ہے۔ماضی میں بھی کئی بار ایسے غریب تارکین وطن کو موت کے گھاٹ اتارا جاتا رہا ہے۔

    اگر ان مزدوروں کے گھروں کو دیکھیں تو ان کی مالی حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔سمجھ نہیں آتا کہ دہشت گرد ان غریب اور بےضرر پنجابیوں کو قتل کر کے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں اور انہیں اس سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟ لیکن ایک چیز افسوسناک ہے کہ بلوچستان کے وزیر اعلی اورترجمان حکومت شاہد رند کا یہ فرمانا کہ یہ مزدور رجسٹرڈ نہیں تھے اگر یہ اپنے آپ کو رجسٹر کرواتے تو انہیں سیکورٹی فراہم کی جاتی۔پہلی بات تو یہ کہ ان کی رجسٹریشن حکومت کی ذمہ داری ہے ان کی نہیں۔دوسری بات یہ کہ پاکستان میں رجسٹرڈ لوگوں کو کیا سہولیات یا تحفظ حاصل ہے جو ان کی رجسٹریشن نہ ہونا ان کا اتنا بڑا جرم بن گیا کہ ان نہتے اور مظلوم لوگوں کو قتل ہی کر دیا جائے۔

    ہر پاکستانی ماچس جیسی چھوٹی چیز سے لے کر گھر تک پر ہزاروں فضول قسم کے ٹیکسز ادا کر رہا ہے مگر بدلے میں اسے بجلی، پانی، گیس، صحت جیسی بنیادی ضروریات زندگی بھی میسر نہیں۔ہم شاید دنیا کی واحد قوم اور ملک ہیں جو اپنے ہی خریدے ہوئے بجلی گیس کے میٹرز کا ماہانہ کرایہ بھی ادا کرتے ہیں اس کے باوجود ہمارے جان و مال اور عزت محفوظ نہیں۔

    اور حکمران اپنی نااہلی پر شرمندہ ہونے کی بجائے مقتولین و مظلومین کو ہی قصور وار ٹھہرا کر اور دہشت گردی کی مذمت کر کے بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔صاحبان اقتدار و اختیار سے صرف ایک سوال ہے کہ اگر وہ اتنے ہی کنگال اور بے بس ہیں توایسے حملے ان پر کیوں نہیں ہوتے؟ ان کی سیکورٹی کے لیے ماہانہ کروڑوں کا خرچہ کہاں سے آتا ہے؟ ان کے لیے ہر سال بلٹ اور بم پروف گاڑیاں کیوں خریدی جاتی ہیں؟ اگر آپ عوام کو کوئی سہولت نہیں دے سکتے ان کا تحفظ نہیں کر سکتے تو استعفا دے کر گھر چلے جائیں۔آپ اس قابل نہیں ہیں کہ اپنا فرض ادا کر سکیں تو ہمیں آپ کی صرف اس لیے ضرورت نہیں کہ ایک ذمہ دارانہ پوسٹ پر بیٹھ کر  آپ صرف نعرے لگاتے رہیں اور ہمارے مرنے کے بعد مذمت کرتے رہیں۔ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیجئے اور اپنی عیاشیاں برقرار رکھیے۔ اگر آپ صحیح معنوں میں عوامی نمائندے ہوتے تو عوام میں گھل مل کر رہتے ان کے مسائل سے آگاہ ہوتے۔انہی جیسی زندگی گزارتے۔مگر آپ تو یہاں صرف عوام کا ٹینٹوا دباکر اپنے فارن اکاوئنٹس اور جائیدادیں بڑھانے آتے ہیں اور حکومت ختم ہونے پر اپنے وطن امریکہ، انگلینڈ،  دوبئی آسٹریلیا جاکر سکھ چین سے زندگی بیتاتے ہیں۔عوام کو اپنے حق کے لیے اب صرف آواز نہیں اٹھانی ہو گی بلکہ سری لنکا بنگلہ دیش والے اقدامات کرنے ہوں گے۔دوسری صورت میں ایسی موت ہی ہم سب کا مقدر ٹھہرے گی۔آج ان مزدوروں کی تو کل ہماری باری ہو گی۔

Loading