Daily Roshni News

۔1925 کی ایک آذربائیجانی اخبار سے ایک تصویر

1925 کی ایک آذربائیجانی اخبار سے ایک تصویر

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )جس میں ایک کارٹون دکھایا گیا ہے جس میں ایک عرب شخص دو افراد، ایک ترک اور ایک فارسی، کو زبان نکال کر دکھا رہا ہے، اور ساتھ لکھا ہے: “بس کرو، احمقو! میری زبان واپس کرو…” اس میں ترکی اور فارسی زبانوں میں عربی الفاظ کے بڑے ذخیرے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

“صادق أتاغول” جو کہ غازی عنتاب یونیورسٹی ترکی میں اسلامیات کے پروفیسر ہیں، کہتے ہیں: “تاریخ کے دوران ترک زبان پر عربی زبان کا بہت گہرا اثر رہا ہے، یہاں تک کہ ترکی میں استعمال ہونے والی عربی اصطلاحات کا تناسب تقریباً 70 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔”

اسی طرح فارسی زبان میں آج تقریباً 60 فیصد الفاظ عربی الاصل ہیں۔ فارسی میں عربی الفاظ کی بھرمار نے فارسی بولنے والوں کو مجبور کیا کہ وہ عربی قواعد کو سمجھیں تاکہ ان الفاظ کے اصل معانی اور اشتقاق کو بہتر طریقے سے جان سکیں۔ یہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ عربی زبان کتنی مضبوط اور اثر انگیز ہے۔

اردو زبان کے بارے میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے۔ اردو زبان میں بھی تقریباً 30 سے 40 فیصد الفاظ عربی سے مستعار لیے گئے ہیں۔ اردو بولنے والوں کو اکثر ان عربی الفاظ کے اصل معانی اور قواعد سے پوری طرح آگاہی نہیں ہوتی۔ جس طرح فارسی بولنے والے عربی قواعد سیکھتے ہیں تاکہ ان کی زبان میں شامل عربی الفاظ کو بہتر طور پر سمجھ سکیں، اسی طرح اردو بولنے والوں کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ عربی کے بنیادی قواعد کو سمجھیں تاکہ اردو میں شامل عربی الفاظ کا صحیح مطلب اور استعمال جان سکیں

اردو زبان، جس میں آج کل انگلش کو بے حد مکس کر دیا گیا ہے، اپنی اصل پہچان کھوتی جا رہی ہے۔ لوگ اب مکمل اردو میں جملے نہیں بنا پاتے کیونکہ ان کو اردو کے قواعد کا صحیح علم نہیں ہوتا۔ ہماری تعلیمی نظام بھی اردو کی بجائے انگلش کی طرف زیادہ جھکاؤ رکھتا ہے، جس سے آنے والی نسلیں اردو سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔ اگر یہی حال رہا تو اردو بھی ان زبانوں میں شامل ہو جائے گی جو اپنی پہچان کھو چکی ہیں۔ اس لیے میں نے انگلش کو چھوڑ کر مکمل اردو لکھنے کا فیصلہ کیا ہے، تاکہ اپنی زبان کی حفاظت کر سکوں

یہی وجہ ہے کہ اردو بولنے والوں کے لیے عربی سیکھنا صرف مذہبی یا علمی لحاظ سے نہیں، بلکہ اپنی زبان کے صحیح ادراک کے لیے بھی مفید ہے۔

Loading