Daily Roshni News

جوگی (انور صدیقی)

جوگی (انور صدیقی)

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل)ہم ابھی اپارٹمنٹ سے ڈیڑھ دو میل دور پہنچے تھے کہ موسلادھار بارش شروع ہو گئی، دیکھتے ہی دیکھتے سڑکوں پر چاروں طرف جل تھل ہو گیا، موٹر کاریں اور بسیں گزرتی ، تو پانی کے چھینٹے پیدل چلنے والوں اور رکنے پر بیٹھے ہوئے لوگوں کے لباس پر بھی آتے تھے۔ شاید اسی خیال سے جلیل کی ہدایت پر رکشے والے نے تیزی سے رکشہ کنارے کر کے روک لیا دوسروں کے دیکھا دیکھی میں بھی رکشے سے اتر کر ایک عمارت کے نیچے جا کر کھڑا ہو گیا، گھڑی پر نظر ڈالی تو ساڑھے آٹھ کا وقت تھا، مجھے کوئی جلدی بھی نہیں تھی، وہ چونکہ ڈیوٹی جوائن کرنے کا پہلا دن تھا اس لئے قانون کے اعتبار سے بارہ بجے تک بھی حاضر ہو سکتا تھا۔ آپ پریشان مت ہوں صاب !” جلیل نے میرے قریب آکر کہا۔ ”ادھر ایسا ہی ہوتا ہے، بارش کا زور دس پندرہ منٹ میں ٹوٹ جائے گا آپ کا دفتر بھی زیادہ دور نہیں ہے، ہم پیدل بھی جاسکتے ہیں۔” کیا خیال ہے ، رکشہ چھوڑ دوں؟” میں نے آہستہ سے دریافت کیا پھر جلیل کے مشورے پر میں نے رکشے والے کو اس کی اجرت دے کر فارغ کر دیا اور عمارتوں کے سائبان کے نیچے سے پیدل ہی چل پڑا اور بھی بہت سارے افراد میری طرح سواری کے بجائے پیدل نظر آ رہے تھے۔ جلیل مجھے وہاں کے بازاروں اور مشہور عمارتوں کے سلسلے میں اپنی معلومات سے آگاہ کرتا رہا، مجھے اپنے لباس کی فکر تھی کہ کہیں گندا نہ ہو جائے لہذا میں دیوار کے ساتھ ساتھ مل کر قدم اٹھا رہا تھا۔ ایک جگہ ہمیں سڑک عبور کرنی تھی، بارش کا زور ابھی ٹوٹا نہیں تھا اس لئے میں ایک دکان کی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر کی جانب کھڑا ہو گیا۔ جلیل نے سامنے کی جانب ہاتھ اٹھا کر اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ وہ جو بڑی عمارت نظر آ رہی ہے اس کے الٹے ہاتھ پر گھوم کر بس دو فرلانگ کے فاصلے پر آپ کا دفتر ہے۔“ کیا تم پہلے کبھی اس دفتر میں جا چکے ہو؟” میں نے پوچھ لیا۔ دفتر میں تو نہیں گیا لیکن اس آفس کا بورڈ ضرور پڑھا تھا۔“

گویا تم پڑھے لکھے بھی ہو ؟“ میں نے قدرے حیرت کا اظہار کیا۔ 8 کلاس تک پڑھا تھا جب باپ کا بلاوا آگیا۔” جلیل نے عجیب انداز میں کہا باپ ہمیشہ کی نیند سو گیا۔ سارا بوجھ میرے اوپر آگیا اس لئے پڑھائی

چھوڑ کر دوسرے دھندوں سے لگ گیا۔ پیٹ کا تندور بھرنے کے لئے انسان کو ہاتھ پیر تو مارنا ہی پڑتا ہے۔”

تمہارے گھر پر تمہارے علاوہ اور کون کون ہے؟”

ایک بوڑھی ماں ہے، دو بہنیں اور ایک چھوٹا بھائی بھی ہے۔”

” تم سب کا خرچ اکیلے پورا کر لیتے ہو ؟” میں نے حیرت کا اظہار کیا۔

”ماں بھی ایک بڑے صاب کے گھر برتن برسن اور جھاڑو لگانے کا کام کرتی ہے، تنخواہ کے علاوہ بچا کھچا کھانا بھی ساتھ لے آتی ہے۔” جلیل نے لاپرواہی سے جواب دیا۔

بس گزارا ہو جاتا ہے۔” “کمال بنرجی کے پاس تمہیں کیا تنخواہ ملتی تھی؟” میں نے کچھ سوچ کر سوال کیا۔ وہ بڑے آدمی تھے اس لئے دو سو روپے دے دیتے تھے ورنہ دوسرے صاب لوگ تو سو سوا پر ہی ٹال دیتے ہیں۔” جھرنا میم صاحب نے تمہیں کیوں ڈس مس کر دیا تھا؟” لاشعوری طور پر وہ سوال میری زبان تک آگیا جس سے میں بچنا چاہتا تھا۔

جلیل نے کچھ کہتے کہتے جلدی سے بات بنا دی۔ ” مجھے یاد

آیا صاب آپ نے گھر سے چلتے وقت اپنے کمرے کا وہ دروازہ بند نہیں کیا تھا جو سڑک کی طرف کھلتا ہے، بارش کا پانی اندر آگیا تو آپ کا سارا سامان خراب ہو جائے گا۔”

اب جو کچھ بھی ہو، میرے لئے دفتر جاتا سامان سے زیادہ ضروری ہے۔ میں نے جواز پیش کیا لیکن یہ بات بھی خاص طور پر محسوس کی کہ جلیل نے جھرنا کے سلسلے میں اصل بات سے کترانے کی کوشش کی تھی۔ “صاب” جلیل نے بڑی خوبصورتی سے مجھے ٹالنے کی خاطر کہا۔ ” آپ دفتر جاؤ” میں واپس گھر جاتا ہوں، آپ کا کمرہ بھی ٹھیک کر دوں گا اور واپسی پر آپ کو فسٹ کلاس مچھی بھات (مچھلی اور ابلے ہوئے چاول) کھلاؤں گا۔” میں نے جلیل کو جانے کی اجازت دے دی، مجھے خود بھی اپنی غلطی کا احساس ہو رہا جلیل سے جھرنا کے بارے میں کچھ پوچھنا زیب نہیں دیتا تھا۔ بہر حال جلیل کے جانے کے بعد میں کچھ دیر دکان کی سیڑھیوں پر کھڑا رہا پھر بارش کا زور کم ہوا تو سڑک عبور کر کے دوسری طرف چلا گیا۔ جلیل نے جس بڑی عمارت کی طرف اشارہ کیا تھا وہاں پہنچ

کر میں بائیں ہاتھ کو گھوم کر ایک فرلانگ ہی دور گیا تھا کہ مجھے اپنے دفتر کا بورڈ دور ہی سے

نظر آگیا۔

Loading