طب نبویﷺ
قسط نمبر 2
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )سام کے ، سام سے مراد ہے موت۔ ( بخاری مسلم) حضرت محمد رسول اللہﷺ نے کلونجی کو شفا کا مظہر قرار دیا تو اس کے فائدے کا کیا ٹھکانہ۔ کلونجی کی افادیت پر ابن القیم کہتے ہیں کہ یہ صلح کو دور کرتی ہے پیٹ سے کیڑے نکال دیتی ہے۔ بخار اتارتی ہے بلغم نکالتی ہے رکاوٹیں کھولتی ہے۔ معدہ اور لبلبہ کی رطوبت کو اعتدال پر لاتی ہے۔ یہ بات ذیا بیطیس کے علاج میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔
کلونجی کو پیس کر گرم پانی میں شہد کے شربت کے ساتھ پینے سے گردوں مثانوں کی پتھری میں افاقہ ہوتا ہے۔ اس سے لقوہ اور فالج میں افاقہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کلونجی سرد امراض کے لیے بہت نافع ہے، فالج اور رعشہ میں اس کا تیل ملنے سے حیرت انگیز نتائج رونما ہوتے ہیں ، تنگی تنفس کے مریضوں کے لیے بہترین علاج قرار دیا جاتا ہے، سردی کھانسی، سینہ کا درد اور ریاحی قولنج میں نفع بخش ہے۔ مہاسوں کا علاج ہے۔
سنامکی :سنا ایک معروف دوا ہے۔ طب یونانی میں بکثرت استعمال ہوتی ہے۔ اس میں یہ عجیب خاصیت ہے کہ اخلاط ثلاثہ یعنی بلغم اور سودا کو خارج کرتی ہے اور ایک قومی سہل کا کام دیتی ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تم سنا کو لازم پکڑلو۔ نبی کریم ﷺکے ارشاد کی روشنی میں اطباء کی تحقیق ملاحظہ ہو ، سنا پیٹ کے کیڑوں کی قاتل ہے، درد سر، درد شقیقہ اور مرگی میں مفید ہے۔ چنانچہ آج بھی سینکڑوں امراض کے علاج کے لیے اس کا استعمال ہو رہا ہے۔ سیال صورت میں بھی ٹیکوں اور سفوف کی صورت میں بھی۔
قسط سے گلے پڑنے کا علاج : حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اپنے بچوں کو گلے پڑنے پر گلے دبانے اور ملنے کی اذیت نہ دو بلکہ تم قسط کا استعمال کرو۔
(بخاری و مسلم)
حضرت امیم قیس سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم اپنے بچوں کا یہ سخت علاج گلے ملنا اور دبانا) کیوں کرتی ہو یہ عود ہندی (قسط) استعمال کیا کرو….. (بخاری و مسلم)
سفرجل (بہی) مفرح قلب سفر جل کو اردو میں یہی ” اور انگریزی میں Quince کہتے ہیں۔ یہ ایک مشہور پھل ہے۔ مفرح اور مقوی ہے معدہ، جگر اور دل و دماغ کے لیے قوت بخش ہے۔ خفقان، حرارت جگر اور ضعف قلب کے لیے نافع اور سود مند ہے۔ پیاس اور قے کے دوران تسکین بخش ثابت ہوتا ہے۔ (کتاب المفردات)
حضرت طلحہ بن عبید بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم ملی علم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ ﷺ کے دست مبارک میں ایک بہی دانہ تھا۔ آپ مٹی میں اینیم نے فرمایا اے طلحہ ….! یہ لوبے شک یہ دل کے لیے مفرح ہے (ابن ماجہ زاد المعاد)
جو کا دلیہ ایک مفید دوا اور بہترین قوت بخش غذا: حضور رسول اکرم ﷺ نے ”جو “ کو مریض کے لیے ایک بہترین خوراک امراض حکم کے لیے ایک مفید دوا اور کمزور دلوں کے لیے قوت بخش غذا بیان فرمایا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ حضور پاک ﷺ کے اہل خانہ میں سے کسی کو بخار ہو جاتا تو حضور ﷺاس کے لیے جو کا دلیا بنانے کا حکم دیتے۔ (زاد المعاد) ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ سے دوسری روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کو اطلاع دی جاتی کہ فلاں کو درد شکم کی شکایت ہے اور وہ کھانا نہیں کھا رہا ہے تو فرماتے تم تلبینہ ( جو کا دلیہ) تیار کر کے اسے چناؤ اور فرماتے اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ تلبینہ تمہارے پیٹ کو اس طرح دھو ڈالتا ہے جیسے کوئی اپنے چہرے کو میل کچیل سے صاف کرتا ہے …..(زاد المعاد)
بخاری و مسلم کی روایت ہے کہ جب کسی کے گھر کسی کا انتقال ہو جاتا تو حضرت عائشہ صدیقہ تلبینہ کی ہنڈیا چڑھانے کا حکم دیتیں چنانچہ تلبینہ پکا لیا جاتا اور وہ خود خرید تیار کرتیں۔ اور خرید پر تلبینہ ڈال کر فرمانی کہ اسے کھاؤ کیونکہ میں نے حضور ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے سنا ہے کہ تلبینہ مریض کے دل کے واسطے تسکین بخش ہے اور غم کے اثرات کو زائل کرتا ہے۔ (زاد المعاد، مستدرک حاکم)
حنا (مہندی) بطور دوا : مہندی ہمارے ملک میں عام استعمال میں آنے والی شے ہے۔ عام طور پر مہندی کے پتے ہیں کر ہاتھ پاؤں اور خوبصورتی کی خاطر یا گرمی زائل کرنے کے لیے لگاتے ہیں۔ اطباء کی تحقیق ہے کہ مہندی مصفی خون اور جلدی بیماریوں کے لیے سود مند ہے۔ جذام، آتشک اور یرقان کے لیے اس کا جو شاندہ مفید ہے۔ مہندی کا لیپ ورم آبلہ اور آگ سے تجلسی جلد کا علاج ہے اس کی خاصیت سرد ہے۔ (کتاب المفردات) ایک حدیث علامہ ابن قیم نے ابن ماجہ کے حوالے سے یوں نقل کی ہے کہ حضور ﷺ کو درد سر ہوتا تو سر پر مہندی لگاتے اور فرمایا کرتے کہ اللہ کے حکم سے یہ درد سر کے لیے نفع بخش ہے۔ (ابن ماجہ )
سرکہ ایک اچھا سالن وصحت کے لیے نفع بخش: حضرت جابر سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ ﷺ نے ایک بار اپنے اہل خانہ سے دریافت کیا کہ گھر میں کوئی سالن ہے انہوں نے عرض کیا گھر میں سرکہ کے سوا کچھ نہیں۔ سرور کائنات ملی ال کلیم نے وہی منگوایا اور اس کے ساتھ ہی کھانا تناول فرما ناشروع کر دیا۔
آپ کھانا کھاتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے سر کہ کتنا اچھا سالن ہے سر کہ کتنا اچھا سالن ہے۔ (مسلم، مخلوق)
نمک رسول پاک می کنیم ارشاد فرماتے ہیں کہ روٹی کے ساتھ کھانے کی جتنی چیزیں ہیں ان سب کا سردار نمک ہے۔ (ابن ماجہ )
نمک کی عدم موجودگی کے باعث جسم میں بہت سے فاسد مادے پیدا ہوتے ہیں جس سے انسان مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اگر نمک کی مناسب مقدار انسانی غذا میں شامل نہ ہو تو انسان کی بھوک مر جاتی ہے، ہاضمے میں کئی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ اگر انسان نمک کا استعمال مکمل طور پر چھوڑ دے تو اس کے زخم جلد ٹھیک نہیں ہوتے۔ یہ نمک ہی ہے جو معدہ اور سینے سے بلغم کو چھانٹتا ہے۔ریاح کو دور کرتا ہے۔
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ حضور ﷺ کھیرے کو نمک کے ساتھ تناول
فرماتے تھے۔ (ابو نعیم)
حکماء کا کہنا ہے کہ کھیرے میں رطوبت ہوتی ہے اور نمک رطوبت کو مارتا ہے اور جسم کے لیے مفید تر بنا دیتا ہے۔ نمک نا صرف خود دوا ہے بلکہ بہت سی دواؤں کی تیاری میں کام آتا ہے۔
تربوز اور ککڑی: حضور پاک ﷺ کو پھلوں میں انگور اور تربوز بہت پسند تھے۔ آپ ﷺ سےشوق سے تناول فرمایا کرتے تھے۔ حضرت سہل بن سعد الساعدی روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ تازه پکی کھجوروں کے ساتھ تربوز نوش فرمایا کرتے تھے۔ (ابن ماجہ ، ترمذی)
سنن ابو داؤد میں اس حدیث میں اتنا اضافہ ہے که حضور ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ کھجور کی گرمی کو تربوز کی ٹھنڈک ماردیتی ہے یا کھجور کی گرمی تربوز کی ٹھنڈک سے زائل ہو جاتی ہے۔
حکماء کا کہنا ہے کہ تربوز تاثیر کے اعتبار سے سرد و تر ہے۔ تربوز اپنی مٹھاس گودے کی سرخی تری ٹھنڈک کے سبب گرمی کے موسم کے پھلوں کا بادشاہ ہے۔ جلد ہضم ہوتا ہے۔ پیٹ کو صاف کرتا ہے۔ گرم پانی نکال دیتا ہے ، چہرے کو نکھارتا ہے۔ تربوز پیٹ کی جلن اور سوزش رفع کرنے والا غذائیت سے بھر پور پھل ہے۔ یہ صفراوی اور گرم مزاج والوں کو نفع دیتا ہے۔ تربوز میں وٹامنز کی معقول مقدار پائی جاتی ہے ، وٹامن اے وٹامن بی اور وٹامن سی بھی پایا جاتا ہے۔
حضور نبی ﷺ نے تازہ کھجور اور لکڑی کو یکجا استعمال فرمایا۔ حضرت عبد اللہ بن جعفر بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور اکرم ﷺ کو دیکھا کہ وہ تازہ کھجور اور لکڑی ایک ساتھ تناول فرمار ہے تھے۔ (بخاری، مسلم، مخلوة)
حافظ ابن قیم کے مطابق تازہ کھجور اور لکڑی یکجا استعمال کرنے سے یہ دونوں ایک دوسرے کے مضر اثرات کو دور کرتے ہیں اور صحت کے لیے نفع بخش غذا بن جاتے ہیں۔ حضور ﷺ خشک کھجور کو گھی یا مکھن کے ساتھ بھی استعمال فرماتے تھے۔ بخار کا علاج ٹھنڈا پانی: بخار ایک عام بیماری ہے اور ہر ایک کو لاحق ہوتی ہے، چھوٹے بڑے جوان بوڑھے بلا تخصیص سب ہی کو ہو سکتا ہے۔ گرمی کے موسم میں گرمی کی شدت اور سورج کی تپش سے اکثر لولگ جاتی ہے جس کے نتیجہ میں بخار کا درجہ حرارت بہت بلندی کو پہنچ جاتا ہے۔ حضرت محمد رسول الله ﷺ نے بخار کے لیے ٹھنڈے پانی کو ایک اچھا علاج تجویز فرمایا ہے۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ بخار جہنم کی بھٹی سے ہے تم ٹھنڈے پانی کے ذریعہ اسے اپنے آپ سے زائل کرو۔ ( ابن ماجہ )
حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ بخار جہنم کی گرمی سے ہے اسے پانی سے ٹھنڈا کرو۔ (مستدرک حاکم، نسائی ابن ماجه ، موطا امام مالک، مسند احمد )
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اکتوبر2022