Daily Roshni News

بیوی کا عادی ہو جانا دنیاوی خوشیوں کی ضمانت ہوتا ہے شائد ۔

بیوی کا عادی ہو جانا دنیاوی خوشیوں کی ضمانت ہوتا ہے شائد ۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )شادی سے پہلے میرے سارے کام یا میں خود کرتا تھا یا میری چھوٹی بہن ۔ شادی سے تیسرے چوتھے دن روٹین لائف شروع ہوئی اور میں ناشتے پر آیا تو میرا ناشتہ وہ خود لا رہی تھی ۔

’ ارے ، آپ تو سو رہی تھیں ، آپ کیسے اٹھ آئیں ‘ میں دل ہی دل میں اس کا تروتازہ چہرہ دیکھ کر خوش ہو گیا ۔ ایک دو دنوں میں جو پہلی خوش قسمتی نظر آئی وہ اس کے چہرے کی تازگی تھی ۔ وہ صبح اٹھتی تو رات سے زیادہ خوبصورت نظر آتی ۔ نہ اس کے بال الجھتے نہ آنکھیں سوجتیں ۔ ’ اب زینب ناشتہ دیتی اچھی لگتی ہے ؟ بیوی سو رہی ہو اور بہن ناشتہ بنائے ! کتنی بری بات ہے ‘ وہ ناشتہ رکھ کر ایک طرف کھڑی ہو گئی ۔ ’ آپ بیٹھ جاؤ ، کھڑی کیوں ہو ‘ ، اور مجھے آج تک پتہ نہیں لگا وہ کیوں کھڑی تھی ۔

رات کا کھانا بھی کچھ اسی طرح رہا ۔ بہت مزہ آیا ۔ بڑا ٹیسٹ تھا اس کے ہاتھ میں ۔ اور دو دن بعد میں ناشتے اور رات کے کھانے کا انتظار کرنے لگا ۔ دو تین پھونکیں مار کر چائے ٹھنڈی کرتی ، اپنے ہاتھ سے ایک ایک سلائس میرے ہاتھ میں تھماتی اور کوئی نہ کوئی بات جاری رکھتی ۔ میں آفر کرتا تو زینب کے ساتھ کھانے کا بہانہ بنا لیتی ۔ رات کھانے پر گرم گرم چپاتی اور سالن رکھ کر مزید چپاتیاں بنانے کچن میں جا بیٹھتی اور کوئی بات بھی کرنے لگتی ۔

 ایک چپاتی ختم ہونے سے پہلے دوسری لا رکھتی اور سالن ختم ہوتا تو چپاتی ختم کرنے کا کہہ کر اور سالن لا دیتی ، اور یہ سلسلہ جاری رہتا ۔ میں باہر سے کھانے کا شوقین پہلے بھی نہیں تھا ، اس کے اس طریقے سے کھلانے نے تو مجھے جیسے گرویدہ کر لیا ۔ اچھا پکانا اور اچھا کھلانا ہر عورت کو نصیب نہیں ہوتا ۔

دس پندرہ دن میں جیسے وہ ہر چیز پر قبضہ کر چکی تھی ۔ وہ جس چیز کو جس کام کو کرتی بس اسی کا ہو جاتا ۔ اس میں اس کی خوشبو اور مہک بس جاتی ۔ صبح دروازے تک چھوڑنے آنا ، بڑی بوڑھیوں کی طرح کسی نیک انسان کے منہ لگنے کی دعائیں دینا ، اور شام کو دروازہ کھولتے ہوئے بسم اﷲ کہہ کر میرے ہاتھ میں پکڑا بیگ یا شاپر سنبھالنا ، جیسے بہت بڑا آسرا بن گئے ۔ تاہم ان سب خوبیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کی امی کے ہاں رہنے کی خواہش بہت بڑی دھمکی نظر آنے لگی ۔

میں اتوار کو صبح صبح اور باقی دنوں میں رات کا کھانا کھا کر اسے امی کے ہاں پھرا لاتا ۔ ’ میں نے رات رہنا ہے کسی دن امی کے ہاں ‘ وہ دوسرے چوتھے یہ بات کر ضرور دیتی ۔ ’ ہر روز تو جاتی ہو ، رات رہنے کی کیا ضرورت ہے ‘ میں ڈرتا وہ میری کمزوری نہ پکڑ لے ، ’ میری چغلیاں کرنی ہوں گی ‘ میں ہنستا ۔ ’ ہونہہ ، چغلیاں کرنی ہیں ‘ وہ جھوٹ موٹ منہ بسورتی ۔

وہ مجھے اپنی عادت تو ڈال چکی تھی ، لیکن کس بات کی ، یہ کہنا بہت مشکل تھا ۔ اس کا کھانا ٹیسٹی تھا ، کھلانے کا طریقہ اس سے بھی ٹیسٹی تھا ، کھانے کے دوران چھوٹی چھوٹی باتیں شائد سب سے ٹیسٹی تھیں ۔ لیکن صرف کھانے کی ہی تو بات نہیں تھی ، وہ مجھے گھر سے رخصت کرنے ، واپس خوش آمدید کہنے کا بھی تو عادی بنا چکی تھی ۔ بیڈ روم کا بھی تو عادی بنا چکی تھی ۔

کون رکھتی ہو گی بیڈ روم اتنا جھاڑ پونچھ کر ، کس نے رکھا ہو گا مسہری کے پھولوں کو اتنا سنبھال کر ، اور اتنے سال سنبھال کر ۔ ویڈنگ نائٹ والی جگہ کوجتنی پاکیزگی اس نے بخشی اور کس نے بخشی ہو گی ۔

بیوی کا عادی ہو جانا دنیاوی خوشیوں کی ضمانت ہوتا ہے شائد ۔

Loading