Daily Roshni News

اوراد و وظائف سائنس اور نفسیات کی روشنی میں۔۔۔ تحریر۔۔۔ابن وصی۔۔۔قسط نمبر1

اوراد و وظائف

سائنس اور نفسیات کی روشنی میں

تحریر۔۔۔ابن وصی

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ اوراد و وظائف سائنس اور نفسیات کی روشنی میں۔۔۔ تحریر۔۔۔ابن وصی ) دعا ء سے خدا اور بندے کے درمیان مکالمہ اور قربت کی ایسی صورت پیدا ہوتی ہے جہاں بندہ اپنے دل کا حال بارگاہ ایزدی میں پیش کر دیتا ہے۔ ماہرین نفسیات و سماجیات اور سائنس دان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اللہ تعالی سے مدد طلبی میں بڑی گہری قوتیں پنہاں ہیں، اس سے نہ صرف سہارا، امید اور رفاقت کا احساس ملتا ہے بلکہ رکاوٹوں کا حیرت انگیز تدارک اور مرض میں معجزانہ شفاء بھی حاصل ہوتی ہے۔ دعا ، ذہنی و جسمانی صحت کو بہتر کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ پاکستان کے معروف اسکالر اور محقق ڈاکٹر غلام برق جیلانی اپنے کتاب من کی دنیا میں تحریر فرماتے ہیں:

دعا و عبادت کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے دو چیزوں کی تشریح ضروری ہے۔ اول: الفاظ ماہرین روحانیات کے ہاں ہر حرف کا ایک خاص رنگ اور اس میں ایک خاص طاقت ہوتی ہے تا ہے۔ غیب بینوں Clairvoyants نے حروف کو لکھ کر تیسری آنکھ سے دیکھا تو انہیں الف کا رنگ سرخ، ب کا نیلا ہو کا سبز اور اس کا رنگ زرد نظر آیا۔ پھر ان الفاظ کے اثرات کا جائزہ لیا تو بعض الفاظ کے پڑھنے سے بیماریاں جاتی رہیں۔ بعض سے بچھو کے ڈنک کی تکلیف غائب ہو گئی اور بعض سے سانپ تک پکڑ لئے گئے۔ انبیاء کی روحانی قوت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ان کے کلمات میں حیرت انگیز طاقت پائی جاتی ہے، اتنی طاقت کہ ان سے خطرناک امراض و آلام تک دور ہو سکتے ہیں۔ اس لئے صحائف الہامی کا ہر لفظ قوت کا ایک خزانہ ہوتا ہے’ یوں کہہ لیجئے کہ الہامی الفاظ Highly Energised ہیں۔ تعویذ کی طاقت کا راز بھی یہی ہے۔ یورپ کے سینٹ اور پادری لیڈبیٹر اپنی کتاب The Masters and the Path میں لکھتے ہیں۔ ہر لفظ ایتھر میں ایک خاص شکل اختیار کر لیتا ہے مثلاً لفظ ” نفرت “ اس قدر بھیانک صورت میں بدل جاتا ہے کہ ایک مرتبہ میں نے یہ صورت دیکھ لی اور اس کے بعد مجھے یہ لفظ استعمال کرنے کی کبھی جرآت نہ ہوئی۔ اس منظر سے مجھے انتہائی ذہنی کوفت ہوئی تھی۔ بعض الفاظ سے اثیر میں نہایت حسین اشیاء تیار ہوتی ہیں اور ایسے الفاظ کی تکرار (ورد) مفید ہے۔“ الہامی الفاظ اور اسمائے الہی میں اتنی طاقت ہے

کہ ان کے ورد سے ہماری پریشانیاں اور بیماریاں دور ہو جاتی ہیں۔ مسلمان اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ ان کے پاس اللہ کے نانوے صفاتی نام مثلا رحیم، کریم، غفور، نخجیر وغیرہ موجود ہیں، جنہیں حسب حاجت پکارا جا سکتا ہے۔

غلام جیلانی صاحب فرماتے ہیں کہ ہر لفظ توانائی کا ایک یونٹ یا ایٹم ہے جسے اندرونی جذبات کی بجلیاں بر قاتی ہیں اور اس کے اثرات اس عالم خاکی اور عالم لطیف (کاسمک ورلڈ یا آسٹرل ورلڈ ) دونوں میں نمودار ہوتے ہیں۔ اس کی ہلکی سی ایک مثال گالی ہے۔ گالی کسی تلوار یا توپ کا نام نہیں بلکہ یہ چند الفاظ کا مجموعہ ہے لیکن منہ سے نکلتے ہی مخاطب کے تن بدن میں آگ لگا دیتی ہے، یہ آگ کہاں سے آتی ہے ؟ الفاظ کے اس مجموعہ ہے۔ اس کی ایک اور مثال وہ کراہ یا چیخ ہے جو کسی دکھیا کے منہ سے نکل کر تمام ماحول کو بے چین کر دیتی ہے یاوہ تقریر ہے جو کوئی آتش بیان جرنیل بے ہمت فوج کے سامنے جھاڑتا ہے اور ہر سپاہی میں اس قدر آگ بھر دیتا ہے کہ وہ موت کے سیلابوں اور طوفانوں سے بھی نہیں بجھ سکتی۔

ہمارا ہر جملہ قوت کا ایک ذخیرہ لیے ہمارے منہ سے نکلتا اور دوسروں کو متاثر کرتا ہے۔ ہماری داد ایک شاعر کے چہرے کو چھکا دیتی ہے۔ ہماری شاباش سے ایک طالب علم کا حوصلہ بلند ہو جاتا ہے۔ جب ہم ایک بیمار کے سرہانے بیٹھ کر چند کلمات شسکین کہتے ہیں تو اسے افاقہ سا محسوس ہونے لگتا ہے اور بعض اوقات ایک مریض بول اٹھتا ہے:

آپ کے آنے سے میری تکلیف کم ہو گئی۔“ برقی صاحب مزید تحریر فرماتے ہیں کہ ”اس

سلسلے میں دوسری توضیح طلب چیز “کاسمک وائبریشنز ” یا امواج اثیر ہیں۔ اب یہ بات ایک سائنسی حقیقت بن چکی ہے کہ ایتھر ایک نہایت حساس چیز ہے جس میں نہ صرف بجلیوں کی کڑک، طیارے کی پرواز اور ٹرین کی حرکت ہی سے لہریں اٹھتی ہیں بلکہ ایک ہلکی سی آواز اور تار زباب کی جنبش سے بھی وہاں ہیجان پیدا ہو جاتا ہے۔ ماہرین روح کی تازہ تحقیق یہ ہے کہ آواز تو رہی ایک طرف، وہاں ارادہ خیال سے بھی لہریں اٹھنے لگتی ہیں۔

ہم جب کسی مصیبت میں مبتلا ہونے کے بعد نیاز و گداز میں ڈوب کر دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہیں تو ہمارے اندرونی جذبات کی قوت (ایموشنل انرجی) کا سمک ورلڈ میں زبر دست لہریں پیدا کرتی ہے۔ جب یہ لہریں فیض رساں طاقتوں سے ٹکراتی ہیں تو انہیں بے چین کر دیتی ہیں، وہ یا تو خود ہماری مدد کو دوڑتی اور راستے کی ہر رکاوٹ کو ہٹاتی ہیں یا خیال کی کوئی لہر وہاں سے چھوڑتی ہیں جو ہمارے دماغ سے ٹکرا کر ایک ایسی تجویز کی شکل اختیار کر لیتی ہے جس پر عمل پیرا ہونے سے ہماری تکلیف دور ہو جاتی ہے۔“ یہ تو تھا دعا کے اثرات کے متعلق ایک نظریاتی (تھیوریکل ) مقالہ اب آتے ہیں پریکٹیکل کی طرف۔ دعا ، ورد، وظائف کے الفاظ کس طرح ہمارے ذہن اور جسم پر اثرات مرتب کرتی ہے، اس سلسلے میں ایک جاپانی سائنس دان ڈاکٹر مساز و ایموٹو Masaru Emoto نے تحقیقات سے ثابت کیا ہے کہ الفاظ اثرات رکھتے ہیں۔

متبادل طریقہ علاج پر تحقیق کے دوران ڈاکٹر مساز و ایموٹو نے انسانوں کے خیال میں پوشیدہ طاقت کو سمجھنے پر کام شروع کیا۔ ڈاکٹر مساز و ایموٹو نے تقریباً 20 سال تحقیق کے بعد 1990ء میں انسانی احساسات، الفاظ، دعا، موسیقی اور ماحول کے پانی پراثرات پر اپنے نظریات و تجربات پیش کیے۔

1999 میں ڈاکٹر ایموٹو کے یہ تجربات کتاب Messages from Water یعنی پانی سے ملنے والے پیغامات “ اور 2004ء میں The Hidden

Messages in Water یعنی ” پانی میں پوشیدہ پیغامات کی صورت میں شائع ہوئے ۔ ان کتابوں میں ، ڈاکٹر مسارو ایموٹو تفصیل سے وضاحت کرتے ہیں کہ ہم جو کہتے ہیں، محسوس کرتے ہیں اور جو کچھ ہم سنتے ہیں وہ ماحول کو بھی متاثر کرتا ہے۔ پانی چونکہ ہر چیز کے اثرات کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے، اس لیے انسان کی مثبت اور منفی سوچ یا جذبات بھی پانی کے مالیکیول اسٹر کھر ( سالماتی ڈھانچے) پر اثر انداز ہوتے ہیں۔“ ڈاکٹر مسارو ایموٹو نے دنیا کے مختلف مقامات سے پانی کے نمونے لیے اور ان پر اپنے منفرد تجربات کا آغاز کیا۔ انہوں نے پانی کو اپنی لیبارٹری میں برف کے باریک ذرات یعنی کرسٹلز Crystals کی شکل میں جانے کا کیا۔ سے میں جمانے کا کام شروع کیا۔ اس تجربے سے انہیں معلوم ہوا کہ پانی، اگر بالکل خالص ہو تو اس کے کرسٹل بہت خوبصورت بنتے ہیں لیکن اگر خالص نہ ہو تو کر سٹل سرے سے بنتے ہی نہیں یا بہت بد شکل بنتے ہیں۔ ان تجربات کے ذریعے یہ حقیقت سامنے آتی ہے جب پانی جم کر کرسٹل بن جاتا ہے تو اس کی اندرونی ساخت میں اس کی اصل شکل ابھر آتی ہے۔ ڈاکٹر مساز و ایموٹو اس نے ایک اور تجربہ یہ کیا کہ انہوں نے شیشے کی سفید بوتلوں میں مختلف اقسام کے پانیوں کے نمونے جمع کیے۔ ڈسٹلڈ واٹر والی بوتل پر انہوں نے لکھا ”You Fool“ اور نلکے کے پانی والی بوتل پر لکھا ”Thank You ” یعنی خالص پانی کو حقارت آمیز جملے سے مخاطب کیا اور نلکے کے پانی کو شکر گزاری کے الفاظ سے اور ان دو بوتلوں کو لیبارٹری میں مختلف مقامات پر رکھ دیا۔

لیبارٹری کے کارکنوں سے کہا گیا جب اس بوتل کے پاس سے گزرو تو You Fool والی بوتل کے پانی کو دیکھ کر کہو “You Fool“ اور Thank” You والی بوتل کے پاس ٹھہر کر سینے پر ہاتھ رکھ کر جھک جاؤ اور بڑی شکر گزاری کے ساتھ اس سے۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ  مارچ 2020

Loading