درویش نے سوال کیا تم اللہ ک ہاں حاضری لگاتے ہو؟
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ایک نرم سی مسکراہٹ کے ساتھ سوال کیا تھا ۔۔۔میں نے کہاکبھی کبھی حاضری دے دیتا ہوں مگر باقاعدگی سے نہیں۔
درویش میری اس صاف گوئی پر مسکرا دیے اور بولے بیٹااللہ کے حضور حاضری دیتے رہا کروحاضری دو گے تو ہی اس کی نظر میں اٹھ سکو گے میں نے پوچھا بابا جی کیا اب میں اس کی نظر سے دور ہوں؟وہ بولے نظر تو اسے ذرے کا ذرہ بھی آتا ہے.
جب انسان اتنی بُلندی پر جا پہنچا ہے اور نہ جانے کیا کچھ نکال لایاہے تو بنانے والا کیا نا جانے گا ؟
اس کے علم میں بھلا کیا نہیں ہے ؟ مگر علم ہونا الگ بات ہے اور اس کی نظر میں آجانا الگ بات ہے
میں نے پوچھا بابا جی اللہ کی نظر میں تو مقرب بندے ہی آتے ہیں ہم جیسے کہاں؟ بابا جی دھیرے سے بولے دیکھو بیٹا مقرب تو انسان کے اعمال اسے ٹھہراتے ہیں جتنی روح پاکیزہ ہو گی اتنی مقرب ہو گی.اور روح کی پاکیزگی اعمال و افعال پر منحصر ہے مقرب وہ نہیں جو خود کو خدا کے قریب محسوس کرے مقرب تو وہ ہے جسے خود اللّہ اپنے سے قریب کرلے ۔
اللّہ کے قریب ہونا کیا ہوتا ہے جانتے ہو؟
میرے اپنے وجود پر گڑی نظروں میں جھانک کر انہوں پوچھا تو میں نے نفی میں سر ہلا دیا.
پھر وہ بولے جو شحض مخلوق کے دلوں میں بس جائے خالق اسے خود ہی نظروں میں بسا لیتا ہے
لیکن مخلوق کی نظروں میں سمانا ہی تو آسان نہیں ہے بڑی جان مارنا پڑتی ہے اپنا آپ مارنا پڑتا ہے
اس کے بندوں کیلئے۔۔۔ رحمن کو منانا تو آسان ہے
مگر عبدالرحمن کو منانا بڑا ہی مشکل کام ہے
اصل راستہ ہی رحمن تک عبدالرحمن سے ہو کر جاتا ہے عبادت جنت تک لے جائے گی اور خدمت اللّہ سے ملا دے گی. تم اپنے دلوں اور زبانوں کو نرم کر لو
میرا اللہ تمہیں اپنا دوست بنا لے گا اور دنیا میں ہی جنت کی ہوائیں چلا دے گا ۔ ان شاء اللہ
اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق عطا فرماۓ آمین ثم آمین یارب العالمین۔۔۔