#پیشکشزہررگ_جاں
نیلام گھر کے مشہور میزبان طارق عزیز کا یومِ وفات
#پیدائش۔28 اپریل 1936
#وفات۔۔17۔جون۔2020
طارق عزیز 28 اپریل 1936ء کو جالندھر ، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ جالندھر کی آرائیں گھرانے سے ان کا تعلق ہے۔انکے والد میاں عبدالعزیز 1947 میں پاکستان ہجرت کر آئے ۔ طارق عزیز نے ابتدائی تعلیم ساہیوال سے ہی میں حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے ریڈیو پاکستان لاہور سے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا۔ جب 1964ء میں پاکستان ٹیلی وژن کا قیام عمل میں آیا تو طارق عزیز پی ٹی وی کے سب سے پہلے مرد اناؤنسر تھے۔ تاہم 1975 میں شروع کیئے جانے والےان کے سٹیج شو نیلام گھر نے ان کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ یہ پروگرام کئی سال تک جاری رہا، اور اسے بعد میں بزمِ طارق عزیز شو کا نام دے دیا گیا۔
طارق عزیز ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ انہوں نے ریڈیو اور ٹی وی کے پروگراموں کے علاوہ فلموں میں بھی اداکاری کی ۔ ان کی سب سے پہلی فلم انسانیت (1967 ) تھی اور ان کی دیگر مشہور فلموں میں سالگرہ، قسم اس وقت کی، کٹاری، چراغ کہاں روشنی کہاں ، ہار گیا انسان قابل ذکر ہیں۔
انہیں ان کی فنی خدمات پر بہت سے ایوارڈ مل چکے ہیں اور حکومتِ پاکستان کی طرف سے 1992ء میں حسن کارکردگی کے تمغے سے بھی نوازا گیا۔ طارق عزیز نے سیاست میں بھی حصہ لیا اور 1997 میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طارق عزیز کی اپنی کوئی اولاد نہ تھی انہوں نے مرنے سے قبل اپنی تمام جائداد اپنے پیارے وطن پاکستان کو وقف کردی۔ ان کی وصیت کے مطابق تدفین سے قبل ان کی پراپرٹی اور 4 کروڑ 41 لاکھ روپے کی رقم قومی خزانے میں جمع کرادی گئی،
طارق عزیز کی آج دوسری برسی ہے
دنیا سے رخصت ہونے والے 84 سالہ پاکستان کے معروف صداکار، میزبان، اداکار اور سابق رکنِ قومی اسمبلی طارق عزیز کو پاکستان ٹیلی ویژن کے پہلے مرد اناؤنسر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
26 نومبر 1964 کو پی ٹی وی کی ا سکرین پر نظر آنے والا سب سے پہلا چہرہ طارق عزیز کا تھا۔
لیجنڈ طارق عزیز نے پی ٹی وی کی نشریات کا آغا زکیا، تعارفی بیان میں طارق عزیز نے کہا کہ ’خواتین و حضرات طارق عزیز آپ سے مخاطب ہے۔‘
انہوں نے پی ٹی وی کی نشریات کے آغاز کو ایک یادگار دن قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان ٹیلیویژن کے حوالے سے آج کا دن ایک یادگار اور تاریخ ساز دن ہے۔
طارق عزیز کا مزید کہنا تھا کہ آج وہ دن ہے کہ جب لاہور میں، شہروں کے شہر، کالجوں کے شہر، باغوں اور پھولوں کے شہر میں پاکستان ٹیلی ویژن اپنی نشریات کا آغاز کررہا ہے۔
پہلی نشریات میں طارق عزیز نے اپنے ناظرین کو اطلاع دیتے ہوئے کہا کہ ’ابھی کچھ ہی دیر پہلے صرف پاکستان ایوب خان کے ہاتھوں نشریات کا باقاعدہ آغاز ہوا ہے۔‘
نشریات کی مزید تفصیل بتاتے ہوئے طارق عزیز نے کہا کہ ابھی شام کے ساڑھے چھ بج رہے ہیں اور کچھ ہی دیر میں موسم کا حال بتایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس کے بعد بچے اپنا پروگرام دیکھیں گے جس میں کوشش ہوگی کہ انہیں کھیل ہی کھیل میں بہت سی کام کی باتیں بتائی جائیں۔
پی ٹی وی کی اس پہلی نشریات میں ’ہوائی جہاز خود بناؤ‘ کے نام سے بچوں کا پروگرام نشر کیا گیا جس میں بچوں کو بتایا گیا کہ ہوائی جہاز کیسے بنایا جاسکتا ہے۔
ریڈیو پاکستان، ٹیلی ویژن، فلم ، صحافت، ادب اور سیاست کاایک نمایاں نام طارق عزیز دو سال پہلے 17 جون 2020 کو اس دنیا سے رخصت ہوئے
ابتدائی تعلیم ساہیوال سے حاصل کرنے کے بعد انہوں نے لاہور کا رخ کیا۔ اورینٹل کالج لاہور میں اعلیٰ تعلیم کو جاری رکھتے ہوئے اپنے کیرئیر کا آغاز ریڈیو پاکستان سے کیا۔ وہ ریڈیو کے سنہری دور کے یادگار فنکاروں میں شامل تھے۔
1975 میں طارق عزیز کی میزبانی میں ‘نیلام گھر’ کا آغاز ہوا جو بعد میں بزم طارق عزیز کے نام سے بھی جاری رہا۔
پی ٹی وی کے ساتھ ساتھ طارق عزیز فلمی صنعت سے منسلک رہے اور متعدد فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔
ان کی پہلی فلم شباب کیرانوی کی ‘انسانیت’ تھی جو 1967 میں ریلیز ہوئی۔ ان کی دیگر مشہور فلموں میں سالگرہ، قسم اس وقت کی، کٹاری، چراغ کہاں روشنی کہاں شامل ہیں۔
طارق عزیز نے کالم نگاری بھی کی اور انہوں نے سیاسی، سماجی، فلمی، ادبی اور سپورٹس کی مشہور ترین شخصیات کے انٹرویوز کرنے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔
جب سیاسی میدان کی ٹھانی تو 1970 کے دور میں ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست میں ان کافعال کردار تھا۔
کچھ عرصہ وہ اپنی پی ٹی وی اور فلم کی مصروفیات کے باعث سیاست کو وقت نہ دے سکے۔
بعدازاں پاکستان مسلم لیگ میں شامل ہو گئے اور 1997 میں لاہور سے ایم این اے منتخب ہوئے۔
ان کے کالموں کا ایک مجموعہ ‘داستان’ کے نام سے اورپنجابی شاعری کا مجموعہ کلام ‘ہمزاد دا دکھ’ شائع ہو چکا ہے۔انہیں اپنی زندگی کے مختلف شعبوں میں بہت سے ایوارڈ مل چکے ہیں۔ 14 اگست 1992 کو حکومت پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نمونہ کلام
—
گھر کی چھت پہ کھڑا تھا میں
جب اس نے پیار جتایا تھا
کوئلے سے دیوار پہ لکھ کر
اپنا نام بتایا تھا
——
گناہ کیہہ اے ، ثواب کیہہ اے
ایہہ فیصلے دا عذاب کیہہ اے
میں سوچناں واں چونہوں دِناں لئی
ایہہ خواہشاں دا حباب کیہہ اے
جے حرف اوکھے میں پڑھ نئیں سکدا
تے فیر جگ دی کتاب کیہہ اے
ایہہ سارے دھوکے یقین دے نیں
نئیں تے شاخ گلاب کیہہ اے
ایہہ ساری بستی عذاب وچ اے
تے حُکمِ عالی جناب کیہہ اے
——
شب دیر تک وہ روتا رہا ، صبح مر گیا
مجھ کو تو یہ عجیب لگا ، جو وہ کر گیا
——
ہم وہ سیہ نصیب ہیں طارق کہ شہر میں
کھولیں دوکاں کفن کی تو سب مرنا چھوڑ دیں
——
پِچھلی راتیں تیز ہوا
سارے شہر وِچ پھردی رہی
زہری قہر دا کوئی وظیفہ
چاروں پاسے کردی رہی
میں تے بُوہا بند ای رکھیا
اپنے پورے زور نال
پتہ نئیں کیہ بیتی ہووے
میرے جیہے کِسے ہور نال
——
ہولی ہولی بُھل جاواں گے
اِک دُوجے دیاں شکلاں وی
ہولی ہولی سِکھ جاواں گے
زندہ رہن دیاں عقلاں وی
——
اِک حقیقی گل
مُڈھ قدیم توں دنیا اندر
دو قبیلے آئے نیں
اِک جنہاں نے زہر نیں پیتے
دوجے جنہاں پیائ