معروف اردو شاعر ،پروفیسر سحر انصاری صاحب 27 دسمبر1941ء پیدائش
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )معروف اردو شاعر ،پروفیسر سحر انصاری صاحب 27 دسمبر1941ء پیدائش ،بقیدِ حیات ۔ جامعہ کراچی سے ,سحر انصاری صاحب نے پہلے انگریزی، پھر اردو اور لسانیات میں ایم اے کیا اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔ اور پھر اسی جامعہ بحیثیت پروفیسر اردو وابستہ ہوئے ،بعد ازاں چیئر مین شعبہ اردو کے عہدے پر فائز ہوئے۔ آرٹس کونسل گورننگ باڈی کے 16 سال تک ممبر اور چیئرمین ادبی کمیٹی رہے اور 3 سال تک نائب صدر کے فرائض انجام دیتے رہے، نام ور اردو اسکالر ، نقاد ،ادیب اور شاعر۔اصل نام : انور مقبول ، تخلص : سحرؔ انصاری آپ کی شاعری میں ادب اور شائستگی کا ایک حسین امتزاج پایا جاتا ہے اور آپ نے اپنی شاعری میں زندگی کے اُس حسن کو بھرپور تغزل کے ساتھ پیش کیا ہے جو ایک عام آدمی کی نگاہ سے پوشیدہ ہے ۔پروفیسر صاحب کے سیکڑوں شاگرد اس وقت زندگی کے ہر میدان میں نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں ۔آپ جامعہ کراچی کے اُس وقت کے ’’پروفیسر‘‘ ہیں جب ’’پروفیسر‘‘ ہوانا واقعی ایک اعزاز سمجھا جاتا تھا اور ایسا سہل عمل نہ تھا۔آپ نے تحقیقی کام (یعنی پی ایچ ڈی) نہیں کیا لیکن فی زمانہ آپ کی علمیت ، قابلیت اور وسیع ترین مطالعہ کسی پی ایچ ڈی اسکالر سے کسی بھی طور کم نھیں بلکہ عمرِ عزیز کے اس حصے میں بھی آپ کی تحقیقی صلاحیتوں پر ایک نکھار کی کیفیت ہے۔پوری دنیا میں آپ کی شاعری مقبول ہے اور ترجمہ بھی کی جارہی ہے ۔پروفیسر صاحب نے اردو کے علاوہ انگریزی ، ہندی ،روسی اور دیگر زبانوں میں بھی شاعری کی ہے اور آپ کی شاعری ان زبانوں میں ترجمہ بھی ہوئی ہے۔ اپ ’’انجمن ترقی اردو‘‘ (پاکستان ) کے نائب معتمد بھی رہے،
حکومتِ پاکستان نے سحر انصاری صاحب کو تمغہ امتیاز اور ستارہء امتیاز سے نوازا ۔
Waiting آپ کی مشہور انگریزی نظم ہے ۔ مجموعہ کلام : ’’ نمود‘‘ اور ’’ خدا سے بات کرتے ہیں‘‘ نمونہ کلام : اک سوال اس کے قدو گیسو سے پہچانا گیا حسن اپنے کون سے جادو سے پہچانا گیا میں ہو ا کی طرح ٹھیرا تھا سرِ شاخِ گلاب وہ بھی اپنے جسم کی خوشبو کی پہچانا گیا تہہ بہ تہہ لفظوں پہ تھے آدابِ محفل کے نقاب تُو بھی اپنی گفتگو میں ’’ تُو ‘‘ سے پہچانا گیا آج تک ایک استعارہ ہی سمجھتے تھے اُسے زخمِ دیتے ہوئے چاقو سے پہچانا گیا اِک تبسم جس کو ہونٹوں پہ سجایا تھا سحرؔ آنکھ میں آئے ہوئے آنسو سے پہچانا گیا