Daily Roshni News

لندن کی فضاؤں سے۔۔۔تحریر۔۔۔ فیضان عارف)

لندن سے ایک خط

فیضان عارف

چائے۔یونائیٹڈ کنگڈم کا قومی مشروب

‏ انگلینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔تحریر۔۔۔ فیضان عارف) برطانیہ کی کل آبادی تقریباً پونے سات کروڑ ہے اور اس ملک کے لوگ روزانہ چائے کے 10کروڑ کپ پیتے ہیں۔ یونائیٹڈ کنگڈم میں کھلی چائے کی پتی نہیں ملتی صرف ٹی بیگ دستیاب ہوتے ہیں جنہیں کیتلی میں اُبالے ہوئے پانی کو کپ میں ڈال کر بڑی آسانی سے چائے بنائی جاتی ہے جسے لوگ انگلش ٹی کہتے ہیں۔ اوورسیز پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد اس چائے کو پسند نہیں کرتی۔انہیں اپنے طریقے سے دیسی چائے یا دودھ پتی بنا کر پینا ہی اچھا لگتا ہے اور اب تو لندن میں جگہ جگہ کڑک چائے اور مسالہ چائے کے سٹال اور ریستوران کھل گئے ہیں۔ برطانیہ میں سرد موسم کا دورانیہ چونکہ زیادہ ہوتا ہے اس لئے ناشتے کے علاؤہ بھی دن میں کئی بار چائے پینے کا رواج عام ہے۔ انگریزوں کی ایک بڑی تعداد دودھ کے بغیر چائے یعنی صرف قہوہ پینے کی عادی ہے۔ برطانوی دارالحکومت لندن میں پہلی بار چائے اس وقت متعارف ہوئی جب 1657ء میں اسے چین سے برطانیہ لایا گیا۔ لندن میں پہلا کمرشل چائے خانہ 1706ء میں کھولا گیا۔ 1720ء تک اس چائے خانے میں صرف بلیک ٹی یعنی قہوے سے گاہکوں کی تواضع کی جاتی تھی لیکن پھر اس میں دودھ اور چینی (شوگر) کی آمیزش سے بادامی رنگت کی چائے متعارف کرائی گئی جس کے ذائقے کو رفتہ رفتہ پسند کیا جانے لگا۔ 1750ء تک چائے صرف امیر گوروں کا مشروب تھا لیکن پھر چائے کی پتیوں کو وافر مقدار میں برطانیہ امپورٹ کر کے اس کی قیمت میں کمی کی گئی اور یوں چائے آہستہ آہستہ ہر گھر کی ضرورت بن گئی اور اسے بعض بیماریوں کا علاج بھی سمجھا جانے لگا۔ خاص طور پر برطانیہ کی ورکنگ کلاس کے جن لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں تھا وہ چائے میں استعمال ہونے والے ابلے ہوئے پانی کو بخار اور کئی موسمی بیماریوں کے لئے مفید تصور کرنے لگے۔ تاہم میڈیکل سائنس ابھی تک یہ ثابت نہیں کرسکی کہ چائے سے کسی بیماری کا علاج ممکن ہے۔ البتہ چائے میں موجود کیفین کی وجہ سے پینے والے کی طبیعت کی سستی ذرا سی کم ہو سکتی ہے یا وہ خود کو ذرا سا چست محسوس کر سکتا ہے۔ یورپ میں چائے کو پرتگیزی تاجروں اور عیسائی مبلغوں نے متعارف کرایا۔ تحقیق کے مطابق چائے تیسری عیسوی صدی میں چین میں دریافت ہوئی جہاں اس کی پتیوں کو ابلے ہوئے پانی میں ڈال کر مشروب کے طور پر استعمال کرنے کی ابتداء ہوئی۔ چین کے علاؤہ ہندوستان میں آسام کے علاقے میں بھی چائے کے پودوں کی موجودگی کے تاریخی شواہد ملتے ہیں۔ اس وقت چائے کی پیداوار میں چین پہلے نمبر پر ہے جو تقریباً 3ملین ٹن چائے ہر سال استعمال اور ایکسپورٹ کرتا ہے جس کے بعد انڈیا اور کینیا کا نمبر آتا ہے۔ سرکی لنکا، ویت نام، ترکی اور ایران چائے کی پیداوار کے معاملے میں بالترتیب چوتھے، پانچویں، چھٹے اور ساتویں نمبر پر آتے ہیں۔ لندن میں ایڈورڈ براماہ نامی ایک شخص نے 1992ء میں ایک ٹی اینڈ کافی میوزیم بنایا تھا جہاں دنیا بھر میں پیدا اور استعمال ہونے والی چائے کی مختلف اقسام اور اُن کی تاریخ کو یکجا کیا گیا تھا۔ لندن آنے والی سیاحوں اور چائے پینے کے شوقین لوگوں کی بڑی تعداد اس میوزیم کو دیکھنے کے لئے ساؤتھ ایسٹ لندن کی سدک سٹریٹ جاتی تھی لیکن یہ میوزیم 2008ء میں ایڈورڈ براماہ کے انتقال کے بعد بند ہو گیا۔ ایڈورڈ نے اپنی 76سالہ زندگی میں چائے کے بارے میں بڑی تحقیق کی اور ایک کتاب”BRITAIN’S TEA HERITAGE“  ترتیب دی جس کی اشاعت سے پہلے ہی وہ اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ برطانیہ کے علاقے کینٹ میں ٹی پاٹ آئی لینڈ کے نام سے ایک ایسا سٹور بھی موجود ہے جہاں چائے کے برتنوں کی 7600اقسام موجود ہیں۔ اس سٹور میں نہ صرف مختلف طرح کی چائے سے گاہکوں کی تواضع کی جاتی ہے بلکہ وہ اپنی پسند اور ذوق کے مطابق منفرد طرز کے چائے کے برتن بھی خرید سکتے ہیں۔ اسی طرح کٹی سارک اور سنٹرل لندن میں بھی چائے کے ایسے بڑے سٹورز ہیں جہاں ہر طرح کی چائے اور ان کی تاریخی معلومات گاہکوں کے لئے دستیاب ہوتی ہیں۔ چائے اس وقت پوری دنیا میں سب سے مقبول اور پانی کے بعد سب سے زیادہ پیا جانے والا مشروب ہے۔ چین کے ٹینفوٹی میوزیم (TENFU TEA MUSEUM) اور ہانگزاؤ نیشنل ٹی میوزیم (HANGZHOU NATIONAL TEA MUSEUM) کا شمار دنیا کے منفرد اور شاندار عجائب گھروں میں ہوتا ہے جنہیں دیکھنے کے لئے دنیا بھر سے چائے کے شوقین وہاں جاتے ہیں۔ اِن کے علاؤہ تائیوان میں پنگلن ٹی میوزیم، سری لنکا میں سیلون ٹی میوزیم، انڈیا (کیرالا) میں کانن دیون ہلز ٹی میوزیم، دارجلنگ(انڈیا) میں ہیپی ویلی ٹی ایسٹیسٹ بھی چائے کی اقسام اور تاریخ کے حوالے سے بہت معلوماتی مراکز ہیں۔ دنیا بھر میں ہر سال 7بلین میٹرک ٹن چائے استعمال ہوتی ہے۔ عالمی سطح پر سب سے زیادہ چائے ترکی کے لوگ پیتے ہیں جن کے بعد کینیا کے لوگوں میں چائے کا استعمال سب سے زیادہ کیا جاتا ہے۔اس وقت چائے کی تجارت کا عالمی حجم ڈھائی سو بلین ڈالرز سالانہ ہے جو 2025ء تک 267بلین ڈالرز سالانہ تک پہنچ جائے گا۔ چائے کی دو ہزار نازک پتیوں کو خشک کرنے کے بعد اُن سے بمشکل آدھا کلو چائے تیار ہوتی ہے اور اب دنیا میں چائے کی ڈیڑھ ہزار سے زیادہ اقسام استعمال کی جاتی ہیں۔ چائے ہو یا کوئی اور مشروب جب انسان اسے پینا شروع کرتا ہے تو ابتداء میں وہ ایک شوق ہوتا ہے لیکن رفتہ رفتہ اس کا استعمال ایک عادت بن جاتی ہے۔ میں نے بہت سے ایسے دوست احباب بھی دیکھے ہیں جو اگر ایک دِن چائے نہ پئیں تو اُن کی طبیعت مضمحل رہتی ہے۔ سردکھنے لگتا ہے مزاج میں بیزاری نمایاں ہونے لگتی ہے۔ اسی طرح بہت سے لوگ اگر صبح کے وقت یا ناشتے میں چائے نہ پئیں تو انہیں ایسا لگتا ہے کہ اُن کے دِن کا آغاز ہی نہیں ہوا۔ ایشیا اور خاص طور پر پاکستان میں چائے مل بیٹھنے کا ایک بہانہ ہوتی ہے۔جب ایک خاندان کسی دوسرے خاندان میں رشتہ دیکھنے کے لئے جائے تو ابتدائی طور پر انہیں چائے پر ہی بلایا جاتا ہے۔ پاکستان میں گذشتہ کچھ عرصے سے ہائی ٹی کا رواج عام ہو گیا ہے۔ متمول گھرانوں کی اس ہائی ٹی میں چائے تو صرف برائے نام اور دیگر لوازمات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ بڑے اہتمام کے ساتھ چائے پینے کے شوقین ہوتے ہیں۔ وہ چینک میں چائے کو دم لگا کر کپ کو پرچ میں رکھ کر بڑی نفاست سے اس مشروب کو اپنے ہونٹوں کے لمس کا اعزاز بخشتے ہیں۔ بہت سے لوگ اعلیٰ معیار کے ٹی سیٹ (چینک، کپ، پرچ، دودھ دانی، چائے دانی) کو اچھی چائے سے مشروط سمجھتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ اعلیٰ معیار کی کراکری سے چائے پینے کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں چائے اور سگریٹ کو شاعروں اور ادیبوں کے لئے لازم و ملزوم سمجھا جاتا ہے۔ صحافی بھی چائے پینے کے معاملے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ اردو کے شاعروں نے چائے کی شان میں قصیدے لکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ چائے کی شان میں ایسی ہی ایک غزل معلوم نہیں کس شاعر نے کہی ہے:

لمس کی آنچ پہ جذبوں نے اُبالی چائے

عشق پیتا ہے کڑک چاہتوں والی چائے

کیتلی ہجر کی تھی غم کی بنالی چائے

وصل کی پی نہ سکے ایک پیالی چائے

ہم نے مشروب سبھی مضرِ صحت ترک کئے

ایک چھوڑی نہ گئی ہم سے یہ سالی چائے

میں یہی سوچ رہا تھا کہ اجازت چاہوں

اس نے پھر اپنے ملازم سے منگالی چائے

رنجشیں بھول کے بیٹھیں کہیں مل کر دونوں

اپنے ہاتھوں سے پلا خیر سگالی چائے

چائے کی ردیف کے ساتھ بے مثال شاعر ظفر اقبال نے ایک طویل غزل لکھی تھی جس کے بعد ساقی فاروقی نے 50سے زیادہ اشعار پر مبنی ایک غزل ”چائے“ کو ردیف بنا کر کہی تھی۔ کوشش کے باوجود مجھے ظفر اقبال اور ساقی فاروقی کی یہ غزلیں میسر نہیں آ سکیں وگرنہ اس کالم میں چائے کی مناسبت سے اُن دونوں سینئر شعراء کا کلام بھی قارئین تک پہنچ جاتا۔ بہرحال گرما گرم چائے تھکن سے نجات کا ذریعہ سمجھی جاتی ہے۔ اکیلے چائے پینے کا لطف اپنی جگہ لیکن کبھی کبھی دوست احباب کے ساتھ بیٹھ کر چائے پینے کا اپنا ہی سرور ہوتا ہے مگر کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ:

ہم اتنی گرم جوشی سے ملے تھے

ہماری چائے ٹھنڈی ہو گئی تھی مشاہدہ کرنا تھا۔ تقریباً ڈیڑھ لاکھ آبادی پر مشتمل کیمبرج ایک تاریخی شہرہے جس کے درمیان سے دریائے کیم گزرتا ہے اور جو برطانیہ کا سائیکلنگ کیپیٹل کہلاتا ہے یعنی کیمبرج کے 55 فیصد لوگ ہفتے میں کم از کم ایک بار سائیکل سواری ضرور کرتے ہیں۔ اس شہر میں کنگز کالج کی تاریخی عمارت، گریٹ سینٹ میری چرچ، فٹزولیم میوزیم، مارکیٹ سکوئر، کیمبرج آرٹس تھیٹر، بوٹینیکل گارڈن، راونڈ چرچ اور کوئنز کالج کے میتھ میٹیکل برج کے علاوہ سیاحوں کے لئے اور بہت سے دلچسپ مقامات ایسے ہیں جن سے تاریخ کا کوئی نہ کوئی حوالہ وابستہ ہے۔ یہ موسم بہار کا ایک روشن دن تھا جب ہم کیمبرج پہنچے، یونیورسٹی کی طرف جانے والا ہر راستہ ہماری طرح کے سیاحوں سے اٹا ہوا تھا۔ لندن سے روانگی پر میں نے اپنے دیرینہ دوست یوسف بیگ صاحب کو اطلاع کر دی تھی جو کہ کیمبرج یونیورسٹی کے فزکس ڈیپارٹمنٹ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے کے سربراہ ہیں۔ بیگ صاحب ایک شاندار اور نفیس انسان ہیں انہوں نے ہمیں کیمبرج یونیورسٹی کے مختلف شعبوں، فکلیٹیز اور کالجز کا اس طرح دورہ کروایا جیسے ایک باخبر ٹورسٹ گائیڈ سیاحوں کی رہنمائی کرتے ہوئے انہیں ہر طرح کی معلومات بہم پہنچاتا ہے۔ ہم جب شہر کا چکر لگا کر لوسی کیونڈش کالج کے کار پارک میں پہنچے تو یوسف بیگ صاحب کچھ ہی دیر بعد ہمیں لینے کے لئے وہاں آ گئے۔ ہمارا ارادہ پیدل گھومنے کا تھا چنانچہ گاڑی کو ایک پارک کے قریب کھڑی کر کے دریائے کیم کی طرف چل دیئے۔ یوسف بیگ راستے میں آنے والی ہر عمارت اور کالج کے بارے میں معلومات سے آگاہ کرنے لگے۔ یونیورسٹی آف کیمبرج دراصل ایک پبلک کالجیٹ ریسرچ یونیورسٹی ہے اس تعلیمی ادارے کے قیام کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ جب آکسفورڈ یونیورسٹی سے سائنس کے کچھ اساتذہ کو سبک دوش کیا گیا تو وہ کیمبرج آ گئے جہاں انہوں نے لوگوں کو انفرادی طور پر پڑھانے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ رفتہ رفتہ طالبعلموں کی تعداد بڑھنے لگی تو مختلف مضامین کی تدریس کے لئے سکول اور کالج بن گئے۔ ابتدا میں ان کالجز میں صرف اُن طالب علموں کو داخلہ دیا جاتا تھا جو غیر شادی ہوتے تھے اور اپنا پورا دھیان پڑھائی لکھائی پر مرکوز رکھتے تھے۔ اِن طلبا کو فارغ التحصیل ہونے پر بیچلر ڈگری دی جاتی تھی۔ گریجوایٹ ہونے والے ان طالب علموں میں سے بہت سے ایسے بھی ہوتے تھے جو مزید تعلیم کے حصول کے لئے ان کالجز میں ہی اپنے اساتذہ کی تدریسی معاملات میں معاونت کرتے اور ایک خاص عرصے کے بعد ایسے طلبا کو ماسٹرز ڈگری دی جاتی تھی۔ اپنے قیام کے 22 برس بعدیعنی 1231 میں برطانوی کنگ ہنری سوئم نے کیمبرج یونیورسٹی کو رائل چارٹر سے سرفراز کیا اور اب یہ ادارہ 31 کالجز، 150 اکیڈمک ڈیپارٹمنٹس اور فکلیٹیز کے علاوہ 6 سکولز پر مشتمل ہے۔ کیمبرج یونیورسٹی میں 8کلچرل اور سائنٹیفک میوزیمز ہیں اور 116 لائبریریز ہیں جہاں کم و بیش 16 ملین کتابوں کا خذانہ موجود ہے۔ صرف کیمبرج یونیورسٹی لائبریری میں 9 ملین کتابیں ہیں جن کی وجہ سے اس کا شمار دنیا کی سب سے بڑی اکیڈمک لائبریری میں ہوتا ہے۔ کیمبرج یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے 121 افراد ایسے ہیں جن کو مختلف شعبوں میں شاندار کارکردگی پر نوبل پرائز مل چکا ہے اور اس ادارے کے 194 لوگ مختلف کھیلوں میں اولمپیکس میڈل حاصل کر چکے ہیں۔ دنیا کی بہت سی نامور شخصیات کو کیمبرج یونیورسٹی سے حصول تعلیم کا اعزاز حاصل رہا جن میں لارڈ بائرن، اولیورکرامویل، چارلس ڈارون، سٹیفن ہاکنگ، آئزک نیوٹن، برٹرینڈرسل، فرانسس بیکن، جان ملٹن اور جواہر لعل نہرو کے علاوہ درجنوں دیگر افرادکے نام شامل ہیں۔ ان شخصیات میں اولیور کرامویل برطانوی تاریخ کا ایک ناقابل فراموش کردار تھا جسے ایک سیاستدان اور ملٹری کمانڈر (ڈکٹیٹر) کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ 25 اپریل 1599 کو پیدا ہونے والا اولیور کرامویل کیمبرج کے سڈنی سسیکس کالج کا تعلیم یافتہ تھا وہ کیمبرج سے دوبار برطانوی پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہوا۔ اگست 1642 میں جب پہلی انگلش سول وار کا آغاز ہوا تو اولیورکرامویل نے پارلیمنٹرین آرمی میں شمولیت اختیار کر لی اور1645 میں نیو ماڈل آرمی کا کمانڈر مقرر ہوا اس نے کئی جنگیں لڑیں اور ایک جنگجو کے طور پر مقبول ہوا۔ 1653 میں اس نے لارڈ پروٹیکٹرآف کامن ویلتھ کا عہدہ حاصل کر لیااور 3 ستمبر 1658کو اپنی وفات تک اس منصب پر فائز رہا اور اسے ویسٹ منسٹر ایبی میں دفن کیا گیا مگر کنگ چارلس دوم کے اقتدار سنبھالنے پر اس کی لاش کو پھانسی دی گئی اور اس کا سر ٹاور آف لندن کے باہر 30 برس تک لٹکا رہاجسے بعد ازاں سڈنی سسیکس کالج کیمبرج کے احاطے میں سپرد خاک کیا گیا۔ کیمبرج یونیورسٹی میں ہر سال تقریباً ساڑھے چوبیس ہزارطالب علم حصول تعلیم کے لئے داخلہ لیتے ہیں جن میں اندرگریجوایٹ اور پوسٹ گریجوایٹ دونوں طرح کے طلبا شامل ہیں۔ یونیورسٹی اور اس سے وابستہ کالجز میں اساتذہ اور انتظامی عملے کی تعداد 10 ہزار کے لگ بھک ہے۔ کیمبرج یونیورسٹی سائنس کے مختلف شعبوں میں اعلی تعلیم اور تحقیق کے لئے ایک منفرد حیثیت کی حامل ہے۔ اب جدید سائنس کے نئے شعبوں کے لئے ویسٹ کیمبرج میں نئی اور شاندار عمارتیں تعمیر کی جا رہی ہیں جہاں طلبا کی ہر طرح کی تعلیمی اور رہائشی سہولتوں کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ یوسف بیگ صاحب جب ہمیں کیمبرج یونیورسٹی کے قدیم اور تاریخی کالجز کے کشادہ بیک گارڈنز دکھاتے ہوئے ویسٹ کیمبرج کے جدید اور زیر تعمیر حصے کی طرف لے جا رہے تھے تو مجھے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا بغداد الجدید کیمپس یاد آنے لگا جو اب ریگستان سے نخلستان میں تبدیل ہو چکا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں 1991 میں اس یونیورسٹی کے شعبہ صحافت (ابلاغیات) کا طالب علم تھا تو ہماری یہ جامعہ ریلوے روڈ اور اولڈ کیمپس تک محدود تھی، بغدادالجدید کیمپس زیر تعمیر تھا اور یہ کیمپس شہر سے باہر تھا مگر اب بہاول پور شہر کی وسعت نے اس کیمپس کو بھی اپنی حدود میں سمیٹ لیا ہے اور یہاں 15 مختلف فکلیٹیز میں ہر سال ہزاروں طلبا و طالبات حصول تعلیم کے لئے داخلہ لیتے ہیں۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا بغدادالجدید کیمپس واقعی جدید سہولتوں سے آراستہ ہے جو ہرے بھرے درختوں سبزہ زاروں اوررنگ برنگے پھولوں سے مزین ہے۔ اس تعلیمی ادارے کی وسعت اور علمی معیار کی بہتری سے نہ صرف بہاولپور ڈویژن میں اعلی تعلیم کی ضرورت پوری ہو رہی ہے بلکہ اس شہر کے علمی وقار میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب اس ادارے کے تعلیمی معیار اور علمی وقار میں اضافے کے لئے خلوص نیت سے سرگرم عمل ہیں اس پر وہ تحسین اور ستائش کے حق دار ہیں۔ کیمبرج یونیورسٹی سے بات اسلامیہ یونیورسٹی تک جا پہنچی لیکن کیا کیا جائے کہ میں جب کبھی کسی اعلی تعلیمی ادارے میں جاتا ہوں تو مجھے اپنی مادر علمی ضرور یاد آتی ہے……کیمبرج شہر میں کیمبرج یونیورسٹی کے علاوہ ایک اور یونیورسٹی جو اینگلیارکسن یونیورسٹی کہلاتی ہے 1858 میں اسے ایک سکول کے طور پر قائم کیا گیا تھا جو اُس وقت سکول آف آرٹ کہلاتا تھا،1992 میں اسے یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہوا۔ اس جامعہ میں ہر سال 35ہزار سے زیادہ طالب علم داخلہ لیتے ہیں۔ کیمبرج یونیورسٹی کی طرح اینگلیارکسن یونیورسٹی میں بھی دنیا بھر سے طلبا کی ایک بڑی تعداد حصول تعلیم کے لئے یہاں آتی ہے اس یونیورسٹی کی چار فکلیٹیز ہیں (1) فیکلٹی آف بزنس اینڈ لا (2) فیکلٹی آف آرٹس ہومینیٹیز اینڈ سوشل سائنسز (3) فیکلٹی آف ہیلتھ ایجوکیشن، میڈیسن اینڈ سوشل کیئر (4) فیکلٹی آف سائنس اینڈ انجینئرنگ۔ برطانیہ کی ترقی میں اس ملک کے تعلیمی نظام، تعلیمی اداروں اور خا ص طور پر یہاں قائم 160 یونیورسٹیز کا کردار بڑا اہم ہے جہاں دنیا کے ذہین ترین لوگ تعلیم اور خاص طور پر سائنس کی تعلیم اور تحقیق کے لئے آتے ہیں کیونکہ دنیا کی چند بہترین یونیورسٹیز خاص طور پر کیمبرج یونیورسٹی اور آکسفورڈ یونیورسٹی برطانیہ میں موجود ہیں جو گذشتہ کئی صدیوں سے حصول علم کی ضرورتوں کو پورا کر رہی ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اِن اداروں کے تعلیمی معیار اور علمی وقار میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ پنجاب یونیورسٹی، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج اور پاکستان کے دیگر کئی تعلیمی ادارے ایسے تھے جہاں دوسرے ملکوں کے لوگ (اوورسیز سٹوڈنٹس) پڑھنے کے لئے آتے تھے معلوم نہیں اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے کہ نہیں؟

٭٭٭

Loading