Daily Roshni News

تلاش ۔۔۔ تحریر۔۔۔واصف علی واصف۔۔۔قسط نمبر1

تلاش

قسط نمبر1

تحریر۔۔۔واصف علی واصف

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔۔ تلاش ۔۔۔ تحریر۔۔۔واصف علی واصف)ہر انسان کسی نہ کسی شئے کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ کوئی کچھ چاہتا ہے، کوئی کچھ ڈھونڈ رہا ہے۔ انسانوں کے ہجوم میں آرزوؤں کا بھی ہجوم ہے۔ دشمن ، دشمن کی تلاش میں ہے اور دوست ، دوست کی تلاش میں۔

کائنات کی تمام اشیاء کا ہمہ وقت مصروف سفر رہنا کسی انوکھی تلاش کا اظہار ہے۔ آرزو کا انجام شکست آرزو ہو، تو بھی یہ ہستی کی دلیل ہے۔ سورج تاریکی کے شکار کو نکلا ہے اور تاریکی سورج کے تعاقب میں ہے۔ دریا کو سمندر کی لگن ہے اور سمندر کو دریا بننے کی خواہش مضطرب کر رہی ہے۔ ہر چیز اپنے اپنے مدار میں اپنی خواہش اور تلاش کے حصار میں ہے۔

تلاش متحرک رکھتی ہے اور حرکت راز ہستی ہے۔ تلاش ہی انسان کی جبلت ہے۔ یہ اس کا اصل ہے۔ یہ اس کا خمیر ہے۔ یہ اس کی سرشت ہے۔ جسے اور کوئی تلاش نہ ہو ، وہ اپنی تلاش کرتا ہے۔ وہ جاننا چاہتا ہے کہ وہ کون ہے ؟ وہ کہاں سے آیا ہے ؟ وہ کب سے ہے؟ اور وہ کب تک رہے گا؟ وہ معلوم کرنا چاہتا ہے کہ وہ کون سا جذبہ ہے جو اسے محرومیوں اور ناکامیوں کے باوجود زندہ رہنے پر مجبور کرتا ہے…..؟

انسان اس بات سے آگاہ ہونا چاہتا ہے کہ یہ کائنات اور نظام کائنات کس نے تخلیق فرمایا؟ تخلیق حسن میں کیا حسن تخلیق ہے ؟ یہ سب جلوے کس کے ہیں ؟ کون ہے اس پر دہ رعنائی کے اندر ؟ اور کون ہے اس پر دےسے باہر ؟ اور یہ پردہ کیا ہے ؟

تلاش کا سفر اتنا ہی قدیم ہے، جتنا ہستی کا سفر ۔ ہر پیدا ہونے والے کے ساتھ اس کی تلاش بھی پیدا ہوتی ہے۔ انسان آگاہ ہو یا بے خبر ، وہ ہمیشہ رہین آرزو رہتا ہے۔ زندگی کی آرزو در اصل کسی کی جستجو ہے۔

انسان کی تلاش ہی اس کا اصل نصیب ہے۔ یہی اس کے عمل کی اساس ہے۔ یہی تلاش اس کے باطن کا اظہار ہے۔ یہی اس کے ایمان کی روشنی ہے. دراصل ہم جس شے کی تلاش کرتے ہیں ‘ اسی نے تو ہمیں اپنی تلاش عطا کی ہے۔ منزل ہی تو ذوق سفر پیدا کرتی ہے اور ذوق منزل’ رہنمائے سفر ہوتا ہے… جو حاصل آرزو ہے’ وہی خالق آرزو ہے۔

انسان کو ہمہ وقت ایسے احساس ہوتا ہے جیسے وہ کچھ کھو چکا ہے۔ وہ کچھ بھول گیا ہے۔ اسے چھوڑی ہوئی منزل متلاشی بناتی ہے ۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے پاس کوئی قدیم راز تھا جو گم ہو گیا۔ اس کا بے ربط ماضی ، اسے کسی درخشندہ مستقبل سے محروم کر گیا۔ شاید وہ دنیا کے عوض آخرت کا سودا کر بیٹھا۔ انسان غور کرتا ہے اور جوں جوں غور کرتا ہے ، ایک شدید پیاس کی طرح ایک نامعلوم تلاش اسے جکڑ لیتی ہے۔ اس تلاش سے مفر نہیں۔

جس انسان کو تلاش کے نقطہ ہائے دقیق سے آشنائی نہ ہو ، وہ دوسرے انسانوں کے چہرے ہی دیکھتا چلا جاتا ہے، جیسے ان چہروں میں اسے کسی خاص چہرے کی تلاش ہو اور وہ چہرہ شاید اس نے دیکھا ہوا بھی نہ ہو، لیکن اسے پہچان لینے کا دعویٰ اس کے پاس موجود ہو۔ ان دیکھے چہرے کو ڈھونڈنا اور اسے پہچانا انسان کی تلاش کا کرشمہ ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے انسان اس چہرے کو پہلی بار دیکھنے سے پہلے بھی دیکھ چکا ہو۔

انسان کی تلاش ہی اس کا اصل نصیب ہے۔ یہی اس کے عمل کی اساس ہے ۔ یہی تلاش اس کے باطن کا اظہار ہے۔ یہی اس کے ایمان کی روشنی ہے۔ تلاش انسان کو چین سے نہیں پیٹھنے دیتی۔ اسے یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے کوئی بچھو اسے اندر سے ڈس رہا ہے۔ وہ بھاگتا ہے ، دوڑتا ہے ، بے تاب و بیقرار ، اس تریاق کی تلاش میں جو اس زہر کا علاج ہے۔ جب وہ شکل سامنے آتی ہے، اسے قرار آجاتا ہے۔ ہر چند کہ اُسے پہلی بار دیکھا ہے ،وہ اسے پہچان لیتا ہے۔

دراصل ہم جس شے کی تلاش کرتے ہیں ، اس نے تو ہمیں اپنی تلاش عطا کی ہے۔ منزل ہی تو ذوقی سفر پیدا کرتی ہے اور ذوقی منزل، رہنمائے سفر ہوتا ہے۔ منزل اگر اپنے مسافر نہ پیدا کرے، تو ہر تلاش ایک واہمہ ہو کر رو جائے۔ جو حاصل آرزو ہے ، وہی خالق آرزو ہے۔ ضرورت کی تلاش اور شے ہے اور تلاش کی ضرورت اور شے۔ عرق گلاب یا گلقند کے لیے گلاب کو تلاش کرنے والا ضرورت مند کہلائے گا۔ اس کی ضرورت کچھ اور ہے۔ اسے ہم تلاش کے باب میں قابل غور نہیں سمجھتے۔ خوشبو کا مسافر، بوئے گل کو منزل دل کا مقام سمجھتا ہے۔ وادی نور کے مسافروں کی رہنما نکہت گل ہی تو ہے۔

کچھ انسان صداقت کی تلاش کرتے ہیں۔ یہ ساری کائنات ہی صداقت پر مبنی ہے، لیکن صداقت کا اپنا الگ وجود نہیں ۔ صداقت ، صادق کی بات کو کہتے ہیں ۔ صادق کا قول صداقت ہے۔ اس صداقت کی پہچان اپنی صداقت سے ہے۔ اپنی صداقت، اعتماد ذات صادق ہے۔ کسی جھوٹے انسان نے کبھی کسی صادق کی تلاش نہیں کی۔ کاذب ، صادق کا ہمسفر نہیں رہ سکتا۔ صادق مانے کے بعد اس کی راہ کے علاوہ کوئی راہ گمراہی ہے۔ تلاش کا یہ مقام بہت ارفع ہے کہ انسان صداقت کی تلاش کرے۔ صادق سے نسبت کا سہارا لے کر انسان

تلاش جو انداز اختیار کرے، حاصل تلاش اُسی انداز میں سامنے آئے گا اور سب سے اچھا اند از تلاش تقرب صادق ہے ، اعتماد شخصیت صادق ہے۔ یہ تلاش عین ایمان ہے۔ سب سے نیچے اور اصل انسان نے حقیقت کے بارے میں جو فرمادیا، وہی حقیقت ہے۔ اس کی اطاعت کرنا ہے۔ نئے اندازِ فکر کی بدعت میں مبتلا نہیں ہونا !۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روخانی ڈائجسٹ اکتوبر 2024

Loading